مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل

حج کے اَحکام ← → خمس کے احکام

زکوۃ کے احکام

مسئلہ (۱۸۷۱)زکوٰۃ دس چیزوں پرواجب ہے :

۱
) گیہوں ۲)جو ۳)کھجور ۴)کشمش

۵
)سونا ۶)چاندی ۷)اونٹ ۸) گائے ۹)بھیڑبکری ۱۰) احتیاط لازم کی بناپرمال تجارت۔

اگرکوئی شخص ان دس چیزوں میں سے کسی ایک کامالک ہوتوان شرائط کے تحت جن کاذکربعدمیں کیاجائے گاضروری ہے کہ جومقدارمقررکی گئی ہے اسے ان مصارف میں صرف کرےجن کاحکم دیاگیاہے۔

زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط

مسئلہ (۱۸۷۲)زکوٰۃ مذکورہ دس چیزوں پراس صورت میں واجب ہوتی ہے جب مال اس نصاب کی مقدارتک پہنچ جائے جس کاذکربعدمیں کیاجائے گااوروہ مال انسان کی اپنی ملکیت ہواوراس کامالک آزادہو۔

مسئلہ (۱۸۷۳)اگرانسان گیارہ مہینے گائے،بھیڑبکری،اونٹ،سونے یاچاندی کا مالک رہے تواگرچہ بارھویں مہینے کی پہلی تاریخ کوزکوٰۃ اس پرواجب ہوجائے گی لیکن ضروری ہے کہ اگلے سال کی ابتداکاحساب بارھویں مہینے کے خاتمے کے بعدسے کرے۔

مسئلہ (۱۸۷۴)سونے،چاندی اورمال تجارت پرزکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ ان چیزوں کا مالک، بالغ اورعاقل ہو۔لیکن گیہوں ،جو،کھجور،کشمش اوراسی طرح اونٹ، گائے اوربھیڑ بکریوں میں مالک کابالغ اورعاقل ہوناشرط نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۷۵)گیہوں اورجوپرزکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب انہیں ’’گیہوں ‘‘ اور ’’جو‘‘ کہاجائے۔کشمش پرزکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ ابھی انگورہی کی صورت میں ہوں اورکھجورپر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب (وہ پک جائیں اور) عرب اسے’’ تمر‘‘کہیں لیکن گیہوں اورجو میں زکوٰۃ کانصاب دیکھنے اورزکوٰۃ دینے کاوقت وہ ہوتاہے جب یہ غلہ کھلیان میں پہنچے اوران (کی بالیوں ) سے بھوسا اور (دانہ) الگ کیاجائے۔جب کہ کھجوراورکشمش میں یہ وقت وہ ہوتاہے جب انہیں اتار لیتے ہیں ۔ اگر اس وقت بغیر کسی عذر یا مستحق کے ہونے کے باوجود تاخیر کیاجائے اور تلف ہوجائے تو اس کا مالک ضامن ہوگا۔

مسئلہ (۱۸۷۶)گیہوں ،جو،کشمش اورکھجور میں زکوٰۃ ثابت ہونے کے لئے (جیسا کہ سابقہ مسئلے میں بتایا گیاہے)معتبرنہیں ہے کہ ان کا مالک ان میں تصرف کر سکے۔ پس اگر مال مالک یااس کے وکیل کے ہاتھ میں نہ ہو مثلاً کسی نے ان چیزوں کوغصب کرلیاہوتو جب مال انھیں مل جائے تو زکوٰۃ اس پر واجب ہے۔

مسئلہ (۱۸۷۷)اگرگائے،بھیڑ،اونٹ،سونے اور چاندی کامالک سال کاکچھ حصہ مست (بے حواس) یا بے ہوش رہے توزکوٰۃ اس پرسے ساقط نہیں ہوتی اور اسی طرح گیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کامالک زکوٰۃ واجب ہونے کے موقع پر مست یابے ہوش ہو جائے توبھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۸۷۸)گیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کے علاوہ دوسری چیزوں میں زکوٰۃ ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مالک شرعی اور تکوینی طورپر اس مال میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتاہو پس اگرکسی نے اس مال کو غصب کرلیاہو جو قابل توجہ مدت شمار کی جائے یا شرعی طور پرمالک اس مال میں تصرف نہ کرسکتاہو تواس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۷۹)اگرکسی نے سونااورچاندی یاکوئی اورچیزجس پرزکوٰۃ دیناواجب ہو کسی سے قرض لی ہواور وہ چیزایک سال تک اس کے پاس رہے توضروری ہے کہ اس کی زکوٰۃ دے اورجس نے قرض دیاہواس پرکچھ واجب نہیں ہےلیکن اگر قرض دینے والا اس کی زکوٰۃ دے دے تولینے والے سے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔

گیہوں ، جو، کھجور اورکشمش کی زکوٰۃ

مسئلہ (۱۸۸۰)گیہوں ، جو،کھجوراورکشمش پرزکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ نصاب کی حدتک پہنچ جائیں اوران کانصاب( تین سو)صاع ہے جوایک گروہ کے بقول تقریباً( ۸۴۷) کیلوگرام ہوتاہے۔

مسئلہ (۱۸۸۱)جس انگور، کھجور، جواور گیہوں پرزکوٰۃ واجب ہوچکی ہواگرکوئی شخص خود یا اس کے اہل وعیال اسے کھالیں یا مثلاً وہ یہ اجناس کسی فقیر کو زکوٰۃ کی نیت کے بغیر دے دے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار استعمال کی ہواس پرزکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۸۸۲)اگرگیہوں ،جو، کھجوراورانگورپرزکوٰۃ واجب ہونے کے بعدان چیزوں کامالک مرجائے توجتنی زکوٰۃ بنتی ہووہ اس کے مال سے دینی ضروری ہے لیکن اگر وہ شخص زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے مرجائے توہروہ وارث جس کا حصہ نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ اپنے حصے کی زکوٰۃ خوداداکرے۔

مسئلہ (۱۸۸۳)جوشخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰۃ جمع کرنے پرمامورہووہ گیہوں اورجو کے کھلیان میں بھوسا (اوردانہ) الگ کرنے کے موقع پر اورکھجوراورانگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰۃ کا مطالبہ کرسکتاہے اوراگرمالک نہ دے اورجس چیز پر زکوٰۃ واجب ہو گئی ہووہ تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ (۱۸۸۴)اگرکسی شخص کے کھجور کے درختوں ، انگور کی بیلوں یا گیہوں اورجو کے کھیتوں (کی پیداوار)کامالک بننے کے بعدان چیزوں پرزکوٰۃ واجب ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان پرزکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۸۸۵)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگورپرزکوٰۃ واجب ہونے کے بعدکوئی شخص کھیتوں اوردرختوں کوبیچ دے توبیچنے والے پران اجناس کی زکوٰۃ دیناواجب ہے اور وہ زکوٰۃ اداکردے توخریدنے والے پر کچھ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۸۶)اگرکوئی شخص گیہوں ،جو،کھجوریاانگورخریدے اور اسے علم ہوکہ بیچنے والے نے ان کی زکوٰۃ دے دی ہے یاشک کرے کہ اس نے زکوٰۃ دی ہے یانہیں تواس پر کچھ واجب نہیں ہے اور اگر اسے معلوم ہوکہ بیچنے والے نے ان پرزکوٰۃ نہیں دی تو ضروری ہے کہ وہ خود اس پرزکوٰۃ دے دے لیکن اگر بیچنے والے نے دغل کیاہوتووہ زکوٰۃ دینے کے بعداس سے رجوع کرسکتاہے اورزکوٰۃ کی مقدار کا اس سے مطالبہ کرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۸۸۷)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کاوزن ترہونے کے وقت نصاب کی حد تک پہنچ جائے اور خشک ہونے کے وقت اس حدسے کم ہوجائے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۸۸)اگرکوئی شخص گیہوں ،جواورکھجورکوخشک ہونے کے وقت سے پہلے خرچ کرے تواگروہ خشک ہوکرنصاب پرپوری اتریں توضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۸۸۹)کھجور کی تین قسمیں ہیں :

۱
) وہ جسے خشک کیاجاتاہے ۔ اس کی زکوٰۃ کاحکم بیان ہوچکا ہے۔

۲
) وہ جورطب (پکی ہوئی رس دار) ہونے کی حالت میں کھائی جاتی ہے۔

۳
) وہ جوکچی ہی کھائی جاتی ہے۔

دوسری قسم کی مقدار اگرخشک ہونے پرنصاب کی حدتک پہنچ جائے تواحتیاط مستحب ہے کہ اس کی زکوٰۃ دی جائے۔جہاں تک تیسری قسم کاتعلق ہے ظاہریہ ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۸۹۰)جس گیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کی زکوٰۃ کسی شخص نے دے دی ہو اگروہ چندسال اس کے پاس پڑی بھی رہیں توان پردوبارہ زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

مسئلہ (۱۸۹۱)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگور(کی کاشت) بارانی یانہری زمین پر کی جائے یامصری زراعت کی طرح انہیں زمین کی نمی سے فائدہ پہنچے توان پرزکوٰۃ دسواں حصہ ہے اوراگران کی سینچائی کے پانی سے بذریعہ ڈول کی جائے تو ان پرزکوٰۃ بیسواں حصہ ہے۔

مسئلہ (۱۸۹۲)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگور(کی کاشت) بارش کے پانی سے بھی سیراب ہواوراسے ڈول وغیرہ کے پانی سے بھی فائدہ پہنچے تواگریہ سینچائی ایسی ہوکہ عام طور پرکہاجاسکے کہ ان کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے تواس پرزکوٰۃ بیسواں حصہ ہے اور اگریہ کہا جائے کہ یہ نہراوربارش کے پانی سے سیراب ہوئے ہیں توان پرزکوٰۃ دسواں حصہ ہے اوراگرسینچائی کی صورت یہ ہوکہ عام طورپرکہاجائے کہ دونوں ذرائع سے سیراب ہوئے ہیں تواس پرزکوٰۃ( ۳؍۴۰ )فی صد ہے۔

مسئلہ (۱۸۹۳)اگرکوئی شک کرے کہ عام طورپرکون سی بات صحیح سمجھی جائے گی اور اسے علم نہ ہوکہ سینچائی کی صورت ایسی ہے کہ لوگ عام طورپرکہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی یایہ کہیں کہ مثلاً بارش کے پانی سے ہوئی ہے تواگروہ( ۳؍۴۰)فی صد زکوٰۃ دے توکافی ہے۔

مسئلہ (۱۸۹۴)اگرکوئی شک کرے اوراسے علم نہ ہوکہ عموماً لوگ کہتے ہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی ہے یایہ کہتے ہیں کہ ڈول وغیرہ سے ہوئی ہے تواس صورت میں بیسواں حصہ دیناکافی ہے اور اگراس بات کا احتمال بھی ہوکہ عموماً لوگ کہیں کہ بارش کے پانی سے سیرابی ہوئی ہے تب بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۸۹۵)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگوربارش اورنہرکے پانی سے سیراب ہوں اور انہیں ڈول وغیرہ کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن ان کی سینچائی ڈول کے پانی سے بھی ہوئی ہو اورڈول کے پانی سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مددنہ ملی ہوتوان پرزکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور اگرڈول وغیرہ کے پانی سے سینچائی ہوئی ہو اورنہراوربارش کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن نہراوربارش کے پانی سے بھی سیراب ہوں اور اس سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مددنہ ملی ہوتوان پر زکوٰۃ بیسواں حصہ ہے۔

مسئلہ (۱۸۹۶)اگرکسی کھیت کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی جائے اور اس سے ملحقہ زمین میں کھیتی باڑی کی جائے اور وہ ملحقہ زمین اس زمین سے فائدہ اٹھائے اور اسے سینچائی کی ضرورت نہ رہے توجس زمین کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے اس کی زکوٰۃ بیسواں حصہ اوراس سے ملحقہ کھیت کی زکوٰۃ احتیاط کی بناپردسواں حصہ ہے۔

مسئلہ (۱۸۹۷)جواخراجات کسی شخص نے گیہوں ،جو،کھجوراورانگورپرکئے ہوں انہیں وہ فصل کی آمدنی سے منہاکرکے نصاب کاحساب نہیں لگاسکتالہٰذااگران میں سے کسی ایک کاوزن و اخراجات کاحساب لگانے سے پہلے نصاب کی مقدارتک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس پرزکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۸۹۸)جس شخص نے زراعت میں بیج استعمال کیاہو خواہ وہ اس کے پاس موجود ہویا اس نے خریداہو وہ نصاب کاحساب اس بیج کوفصل کی آمدنی سے منہا کرکے نہیں کرسکتابلکہ ضروری ہے کہ نصاب کاحساب پوری فصل کومدنظر رکھتے ہوئے لگائے۔

مسئلہ (۱۸۹۹)جوکچھ حکومت اصلی مال سے (جس پرزکوٰۃ واجب ہو) بطورٹیکس لے لے اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے مثلاً اگرکھیت کی پیداوار(۲۰۰۰ ) کیلو ہو اور حکومت اس میں سے( ۱۰۰)کیلوبطورلگان لے لے توزکوٰۃفقط( ۱۹۰۰)کیلو پرواجب ہے۔

مسئلہ (۱۹۰۰)احتیاط واجب کی بناپرانسان یہ نہیں کرسکتاکہ جواخراجات اس نے زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے کئے ہوں یا بعد میں کئے ہوں انہیں وہ پیداوار سے منہاکرے اورصرف باقی ماندہ پرزکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۰۱)زکوٰۃ واجب ہونے کے بعدجواخراجات کئے جائیں اورجوکچھ زکوٰۃ کی مقدارکی نسبت خرچ کیاجائے وہ پیداوارسے منہانہیں کیاجاسکتااگرچہ(احتیاط کی بناپر)حاکم شرع یااس کے وکیل سے اس کوخرچ کرنے کی اجازت بھی لے لی ہو۔

مسئلہ (۱۹۰۲)کسی شخص کے لئے یہ واجب نہیں کہ وہ انتظارکرے تاکہ جواور گیہوں کھلیان تک پہنچ جائیں اورانگوراورکھجورکے خشک ہونے کاوقت ہوجائے پھر زکوٰۃ دے بلکہ جیسےہی زکوٰۃ واجب ہوجائز ہے کہ زکوٰۃ کی مقدارکااندازہ لگاکروہ قیمت بطور زکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۰۳)زکوٰۃ واجب ہونے کے بعدمتعلقہ شخص یہ کرسکتاہے کہ کھڑی فصل کاٹنے یاکھجوراورانگور کوچننے سے پہلے زکوٰۃ مستحق شخص یاحاکم شرع یااس کے وکیل کو مشترکہ طورپرپیش کردے اوراس کے بعدوہ اخراجات میں شریک ہوں گے۔

مسئلہ (۱۹۰۴)جب کوئی شخص فصل یاکھجوراورانگور کی زکوٰۃ عین مال کی شکل میں حاکم شرع یامستحق شخص یاان کے وکیل کودے دے تواس کے لئے ضروری نہیں کہ بلا معاوضہ مشترکہ طورپران چیزوں کی حفاظت کرے بلکہ وہ فصل کی کٹائی یاکھجور اور انگور کے خشک ہونے تک مال زکوٰۃ اپنی زمین میں رہنے کے بدلے اجرت کامطالبہ کرسکتا ہے۔

مسئلہ (۱۹۰۵)اگرانسان کئی شہروں میں گیہوں ،جو،کھجوریاانگورکامالک ہواوران شہروں میں فصل پکنے کاوقت ایک دوسرے سے مختلف ہواوران سب شہروں سے فصل اور میوے ایک ہی وقت میں دستیاب نہ ہوتے ہوں اوریہ سب ایک سال کی پیداوار شمار ہوتے ہوں تواگران میں سے جوچیزپہلے پک جائے وہ نصاب کے مطابق ہوتوضروری ہے کہ اس پراس کے پکنے کے وقت زکوٰۃ دے اورباقی ماندہ اجناس پراس وقت زکوٰۃ دے جب وہ دستیاب ہوں اوراگرپہلے پکنے والی چیزنصاب کے برابر نہ ہو تو انتظار کرے تاکہ باقی اجناس پک جائیں ۔پھراگرسب ملاکر نصاب کے برابر ہوجائیں توان پرزکوٰۃ واجب ہے اوراگرنصاب کے برابر نہ ہوں توان پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۰۶)اگرکھجوراورانگورکے درخت سال میں دودفعہ پھل دیں اوردونوں مرتبہ کی پیداوار جمع کرنے پرنصاب کے برابر ہوجائے تو(احتیاط کی بناپر)اس پیداوارپر زکوٰۃ واجب ہے۔

مسئلہ (۱۹۰۷)اگرکسی شخص کے پاس غیرخشک شدہ کھجوریں ہوں یاانگورہوں جو خشک ہونے کی صورت میں نصاب کے مطابق ہوں تواگران کے تازہ ہونے کی حالت میں وہ زکوٰۃ کی نیت سے ان کی اتنی مقدار زکوٰۃ کے مصرف میں لے جتنی ان کے خشک ہونے پرزکوٰۃ کی اس مقدار کے برابر ہوجو اس پرواجب ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔

مسئلہ (۱۹۰۸)اگرکسی شخص پرخشک کھجوریاکشمش کی زکوٰۃ واجب ہوتووہ ان کی زکوٰۃ تازہ کھجوریاانگورکی شکل میں نہیں دے سکتابلکہ اگروہ خشک کھجوریاکشمش کی زکوٰۃ کی قیمت لگائے اورانگوریاتازہ کھجوریں یا کشمش یاکوئی اورخشک کھجوریں اس قیمت کے طورپر دے تو اس میں بھی اشکال ہے نیزاگرکسی پرتازہ کھجور یاانگورکی زکوٰۃ واجب ہوتووہ خشک کھجوریا کشمش دے کر زکوٰۃ ادانہیں کرسکتابلکہ اگروہ قیمت لگاکرکوئی دوسری کھجور یا انگور دے تو اگرچہ وہ تازہ ہواس میں اشکال ہے۔

مسئلہ (۱۹۰۹)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جومقروض ہواوراس کے پاس ایسامال بھی ہوجس پرزکوٰۃ واجب ہوچکی ہوتوضروری ہے کہ جس مال پرزکوٰۃ واجب ہوچکی ہو پہلے اس میں سے تمام زکوٰۃ دی جائے اوراس کے بعداس کاقرضہ اداکیاجائے لیکن اگر اس کے ذمہ میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہوتو یہ بقیہ قرضوں کی طرح شمار ہوگی۔

مسئلہ (۱۹۱۰)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جومقروض ہواوراس کے پاس گیہوں ، جو، کھجور یاانگوربھی ہواور اس سے پہلے کہ ان اجناس پرزکوٰۃ واجب ہواس کے ورثاء اس کا قرضہ کسی دوسرے مال سے اداکردیں تو جس وارث کاحصہ نصاب کی مقدار تک پہنچتاہو ضروری ہے کہ زکوٰۃ دے اور اگراس سے پہلے کہ زکوٰۃ ان اجناس پرواجب ہومتوفی کا قرضہ ادانہ کریں اوراگراس کامال فقط اس قرضے جتناہوتوورثاء کے لئے واجب نہیں کہ ان اجناس پرزکوٰۃ دیں اوراگرمتوفی کامال اس کے قرض سے زیادہ ہوجب کہ متوفی پراتنا قرض ہوکہ اگراسے اداکرناچاہیں تواداکرسکیں ضروری ہے کہ گیہوں ، جو، کھجور اور انگور میں سے کچھ مقداربھی قرض خواہ کودیں لہٰذاجوکچھ قرض خواہ کودیں اس پرزکوٰۃ نہیں ہے اور باقی ماندہ مال پروارثوں میں سے جس کابھی حصہ زکوٰۃ کے نصاب کے برابر ہواس کی زکوٰۃ دیناضروری ہے۔

مسئلہ (۱۹۱۱)جس شخص کے پاس اچھی اورگھٹیادونوں قسم کا گندم،جو،کھجوراور انگور ہوں جن پرزکوٰۃ واجب ہوئی ہواس کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ اچھے مال کی زکوٰۃ گھٹیا مال سے نہ دے۔

سونے کانصاب

مسئلہ (۱۹۱۲)سونے کے نصاب دوہیں :

اس کاپہلانصاب:

بیس مثقال شرعی ہے جب کہ ہرمثقال شرعی (۱۸؍)نخود(چنا)کا ہوتا ہے۔پس جس وقت سونے کی مقداربیس مثقال شرعی تک جوآج کل کے پندرہ مثقال کے برابرہوتے ہیں ،پہنچ جائے اوروہ دوسری شرائط بھی پوری ہوتی ہوں جوبیان کی جا چکی ہیں توضروری ہے کہ انسان اس کاچالیسواں حصہ (جو۹؍نخودکے برابرہوتاہے )زکوٰۃ کے طورپردے اور اگرسونااس مقدارتک نہ پہنچے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

دوسرا انصاب:

اور اس کا چارمثقال شرعی ہے جومعمولی تین مثقال کے برابرہوتے ہیں یعنی اگر پندرہ مثقال پرتین مثقال کااضافہ ہوجائے توضروری ہے کہ تمام(۱۸؍)مثقال پر(۱؍۴۰ )کے حساب سےزکوٰۃ دے اور اگرتین مثقال سے کم اضافہ ہوتوضروری ہے کہ صرف( ۱۵؍)مثقال پرزکوٰۃ دے اوراس صورت میں اضافے پرزکوٰۃ نہیں ہے اورجوں جوں اضافہ ہواس کے لئے یہی حکم ہے یعنی اگرتین مثقال اضافہ ہوتوضروری ہے کہ تمام مقدارپرزکوٰۃ دے اور اگراضافہ تین مثقال سے کم ہوتوجومقداربڑھی ہواس پرکوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔

چاندی کانصاب

مسئلہ (۱۹۱۳)چاندی کے نصاب دوہیں :

اس کاپہلانصاب:

( ۱۰۵؍)مروجہ مثقال ہے لہٰذاجب چاندی کی مقدار( ۱۰۵؍) مثقال تک پہنچ جائے اور وہ دوسری شرائط بھی پوری کرتی ہوجو بیان کی جاچکی ہیں تو ضروری ہے کہ انسان اس کا(۴۰؍۱ )جودومثقال اور( ۱۵؍)نخودبنتاہے بطورزکوٰۃ دے اور اگروہ اس مقدارتک نہ پہنچے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

دوسرانصاب:

( ۲۱؍) مثقال ہے یعنی اگر( ۱۰۵؍)مثقال پر(۲۱؍)مثقال کااضافہ ہوجائے توضروری ہے کہ جیساکہ بتایاجاچکاہے پورے (۱۲۶؍)مثقال پرزکوٰۃ دے اوراگر(۲۱؍)مثقال سے کم اضافہ ہوتو ضروری ہے کہ صرف( ۱۰۵؍)مثقال پرزکوٰۃ دے اورجواضافہ ہواہے اس پرزکوٰۃ نہیں ہے اورجتنابھی اضافہ ہوتاجائے یہی حکم ہے یعنی اگر(۲۱؍)مثقال کااضافہ ہوتوضروری ہے تمام مقدارپرزکوٰۃ دے اور اگر اس سے کم اضافہ ہوتو وہ مقدارجس کااضافہ ہواہے اور جو (۲۱؍)مثقال سے کم ہے اس پرزکوٰۃ نہیں ہے۔اور اگر اس بات کا شک ہو کہ نصاب کی حد تک پہونچا ہے یا نہیں تو(احتیاط واجب کی بناءپر) اس کی تحقیق کرے۔

مسئلہ (۱۹۱۴)جس شخص کے پاس نصاب کے مطابق سونایاچاندی ہواگرچہ وہ اس پرزکوٰۃ دے دے لیکن جب تک اس کے پاس سونایاچاندی پہلے نصاب سے کم نہ ہو جائے ضروری ہے کہ ہرسال ان پرزکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۱۵)سونے اور چاندی کی زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب وہ سکے میں ڈھلے ہوں اور ان کے ذریعہ لین دین کا رواج ہو لیکن اگر سکہ کی شکل میں نہ رہ گئی ہوں لیکن ان کے ذریعہ لین دین کا رواج ہوتوضروری ہےکہ ان کی زکوٰۃ دے لیکن اگر رواج نہ رہ گیاہو اور سکے کی شکل میں باقی ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۱۶)وہ سکہ دارسونااورچاندی جنہیں عورتیں بطورزیورپہنتی ہوں جب تک وہ رائج ہوں یعنی سونے اورچاندی کے سکوں کے طورپران کے ذریعے لین دین ہوتاہو(احتیاط کی بناپر)ان کی زکوٰۃ دیناواجب ہے لیکن اگران کے ذریعے لین دین کا رواج باقی نہ ہوتوان پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۱۷)جس شخص کے پاس سونااورچاندی دونوں ہوں اگران میں سے کوئی بھی پہلے نصاب کے برابرنہ ہومثلاً اس کے پاس( ۱۰۴؍)مثقال چاندی اور( ۱۴؍)مثقال سونا ہوتواس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۱۸)جیساکہ پہلے بتایاگیاہے سونے اورچاندی پرزکوٰۃ اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب وہ گیارہ مہینے نصاب کی مقدار کے مطابق کسی شخص کی ملکیت میں رہیں اوراگرگیارہ مہینوں میں کسی وقت سونا اورچاندی پہلے نصاب سے کم ہوجائیں تو اس شخص پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۱۹)اگرکسی شخص کے پاس سونااورچاندی ہواوروہ گیارہ مہینے کے دوران انہیں کسی دوسری چیز سے بدل لے یاانہیں پگھلالے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن اگروہ زکوٰۃ سے بچنے کے لئے ان کو سونے یاچاندی سے بدل لے یعنی سونے کو سونے یا چاندی سے، یاچاندی کو چاندی یا سونے سے بدل لے تواحتیاط واجب ہے کہ زکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۲۰)اگرکوئی شخص بارھویں مہینے میں سونایاچاندی پکھلائے توضروری ہے کہ ان پرزکوٰۃ دے اور اگرپگھلانے کی وجہ سے ان کاوزن یاقیمت کم ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان چیزوں کوپگھلانے سے پہلے جوزکوٰۃ اس پرواجب تھی وہ دے۔

مسئلہ (۱۹۲۱)سونے اورچاندی کے سکے جن میں معمول سے زیادہ دوسری دھات کی آمیزش ہواگرانہیں چاندی اورسونے کے سکے کہاجاتاہوتواس صورت میں جب وہ نصاب کی حدتک پہنچ جائیں ان پرزکوٰۃ واجب ہے اگرچہ ان کاخالص حصہ نصاب کی حد تک نہ پہنچے لیکن اگرانہیں سونے اورچاندی کے سکے نہ کہاجاتاہوتوخواہ ان کاخالص حصہ نصاب کی حدتک پہنچ بھی جائے اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۲۲)جس شخص کے پاس سونے اورچاندی کے سکے ہوں اگران میں دوسری دھات کی آمیزش معمول کے مطابق ہوتواگروہ شخص ان کی زکوٰۃ سونے اور چاندی کے ایسے سکوں میں دے جن میں دوسری دھات کی آمیزش معمول سے زیادہ ہو یا ایسے سکوں میں دے جو سونے اورچاندی کے بنے ہوئے نہ ہوں لیکن یہ سکے اتنی مقدار میں ہوں کہ ان کی قیمت اس زکوٰۃ کی قیمت کے برابر ہوجو اس پرواجب ہوگئی ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اونٹ، گائے اور بھیڑ،بکری کی زکوٰۃ

مسئلہ (۱۹۲۳)اونٹ،گائے اوربھیڑبکری کی زکوٰۃ کے لئے ان شرائط کے علاوہ جن کا ذکرآچکاہے ایک شرط اوربھی ہے اوروہ یہ کہ حیوان ساراسال صرف جنگلی گھاس چرتارہاہو۔لہٰذا اگرساراسال یااس کا کچھ حصہ کاٹی ہوئی گھاس کھائے یاایسی چراگاہ میں چرے جوخوداس شخص کی (یعنی حیوان کے مالک کی) یاکسی دوسرے شخص کی ملکیت ہوتواس حیوان پرزکوٰۃ نہیں ہے لیکن اگروہ حیوان سال بھرمیں کچھ کم مقدار میں مالک کی مملوکہ گھاس(یاچارا) کھائے تواس کی زکوٰۃ واجب ہے۔لیکن اونٹ، گائے اور بھیڑ کی زکوٰۃ واجب ہونے میں شرط یہ نہیں ہے کہ ساراسال حیوان بے کار رہے بلکہ اگرآبیاری یاہل چلانے یاان جیسے امورمیں ان حیوانوں سے استفادہ کیاجائے لیکن اگر عرف میں انہیں بے کارشمار کیا جاتا ہو بلکہ اگر انہیں بے کار شمار نہ بھی کیا جائے تو (احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۲۴)اگرکوئی شخص اپنے اونٹ، گائے اور بھیڑ کے لئے ایک ایسی چراگاہ خریدے جس میں کسی نے کاشت نہ کی ہویااسے کرائے پرحاصل کرے تواس صورت میں زکوٰۃ کاواجب ہونامشکل ہے اگرچہ زکوٰۃ کادینااحوط ہے لیکن اگروہاں جانور چرانے کاٹیکس اداکرے توضروری ہے کہ زکوٰۃ دے۔

اونٹ کے نصاب

مسئلہ (۱۹۲۵)اونٹ کے نصاب بارہ ہیں :

۱:
) پانچ اونٹ ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک بھیڑہے اورجب تک اونٹوں کی تعداد اس حد تک نہ پہنچے،زکوٰۃ نہیں ہے۔

۲:
)دس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ دوبھیڑیں ہیں ۔

۳:
)پندرہ اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ تین بھیڑیں ہیں ۔

۴:
)بیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ چاربھیڑیں ہیں ۔

۵:
)پچیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ پانچ بھیڑیں ہیں ۔

۶:
)چھبیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جودوسرے سال میں داخل ہوچکاہو۔

۷:
)چھتیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جوتیسرے سال میں داخل ہو چکاہو۔

۸:
)چھیالیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جوچوتھے سال میں داخل ہوچکاہو۔

۹:
)اکسٹھ اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جوپانچویں سال میں داخل ہو چکاہو۔

۱۰:
)چھہتراونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ دوایسے اونٹ ہیں جوتیسرے سال میں داخل ہو چکے ہوں ۔

۱۱:
)اکیانوے اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ دوایسے اونٹ ہیں جوچوتھے سال میں داخل ہوں۔

۱۲:
)ایک سواکیس اونٹ اور اس سے اوپرجتنے ہوتے جائیں ضروری ہے کہ زکوٰۃ دینے والا یاتوان کاچالیس سے چالیس تک حساب کرے اور ہر چالیس اونٹوں کے لئے ایک ایسااونٹ دے جو تیسرے سال میں داخل ہوچکاہویاپچاس کااور ہرپچاس اونٹوں کے لئے ایک اونٹ دے جوچوتھے سال میں داخل ہو چکا ہویاچالیس اورپچاس کا حساب کرے اوربعض موقعوں پر اسے اختیار ہے کہ یا چالیس کا حساب کرے یا پچاس کاجیسے دوسو اونٹ لیکن ہر صورت میں اس طرح حساب کرناضروری ہے کہ کچھ باقی نہ بچے یااگربچے بھی تونوسے زیادہ نہ ہو مثلاً اگر اس کے پاس( ۱۴۰)اونٹ ہوں توضروری ہے کہ ایک سوکے لئے دوایسے اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل ہوچکے ہوں اور چالیس کے لئے ایک ایسااونٹ دے جوتیسرے سال میں داخل ہو چکاہواورجو اونٹ زکوٰۃ میں دیاجائے اس کامادہ ہوناضروری ہےلیکن اگر چھٹے نصاب میں اسے مادہ اونٹ نہ ملیں کہ جو دوسال کے ہوں تو تین سال کانر اونٹ بھی کا فی ہے اور اگر وہ بھی نہ ملے تو ہر طرح کی خریداری کا اختیار ہے۔

مسئلہ (۱۹۲۶)دونصابوں کے درمیان زکوٰۃ واجب نہیں ہے لہٰذااگرایک شخص جو اونٹ رکھتاہوان کی تعدادپہلے نصاب سے جوپانچ ہے،بڑھ جائے توجب تک وہ دوسرے نصاب تک جودس ہے نہ پہنچے ضروری ہے کہ فقط پانچ پرزکوٰۃ دے اور باقی نصابوں کی صورت بھی ایسی ہی ہے۔

گائے کانصاب

مسئلہ (۱۹۲۷)گائے کے دونصاب ہیں :

اس کاپہلا نصاب :

تیس ہے جب کسی شخص کی گایوں کی تعداد تیس تک پہنچ جائے اوروہ شرائط بھی پوری ہوتی ہوں جن کاذکرکیاجاچکاہے توضروری ہے کہ گائے کا ایک ایسابچہ جودوسرے سال میں داخل ہوچکاہوزکوٰۃ کے طورپردے اور احتیاط (واجب) یہ ہے کہ وہ بچھڑاہو۔

اس کادوسرانصاب :

چالیس ہے اوراس کی زکوٰۃ ایک بچھیاہے جو تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہواورتیس اورچالیس کے درمیان زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ مثلاًجس شخص کے پاس انتالیس گائیں ہوں ضروری ہے کہ صرف تیس کی زکوٰۃ دے اور اگر اس کے پاس چالیس سے زیادہ گائیں ہوں توجب تک ان کی تعداد ساٹھ تک نہ پہنچ جائے ضروری ہے کہ صرف چالیس پرزکوٰۃ دے اور جب ان کی تعدادساٹھ تک پہنچ جائے توچونکہ یہ تعداد پہلے نصاب سے دگنی ہے اس لئے ضروری ہے کہ دوایسے بچھڑے بطور زکوٰۃ دے جودوسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں اوراسی طرح جیسے جیسے گایوں کی تعداد بڑھتی جائے ضروری ہے کہ یاتوتیس سے تیس تک حساب کرے یاچالیس سے چالیس تک یاتیس اور چالیس دونوں کاحساب کرے اور ان پراس طریقے کے مطابق زکوٰۃ دے جو بتایاگیاہے۔لیکن ضروری ہے کہ اس طرح حساب کرے کہ کچھ باقی نہ بچے اوراگرکچھ بچے تونوسے زیادہ نہ ہو مثلاًاگراس کے پاس ستّرگائیں ہوں توضروری ہے کہ تیس اور چالیس کے مطابق حساب کرے اور تیس کے لئے تیس اورچالیس کے لئے چالیس کی زکوٰۃ دے کیونکہ اگروہ تیس کے لحاظ سے حساب کرے گاتودس گائیں بغیر زکوٰۃ دیئے رہ جائیں گی اور بعض موقعوں پر جیسے (۱۲۰) کی تعداد پر اسے اختیار حاصل ہے۔

بھیڑکانصاب

مسئلہ (۱۹۲۸)بھیڑ کے پانچ نصاب ہیں :

پہلانصاب:

( ۴۰)ہے اوراس کی زکوٰۃ ایک بھیڑہے اور جب تک بھیڑوں کی تعداد چالیس تک نہ پہنچے ان پرزکوٰۃ نہیں ہے۔

دوسرانصاب:

( ۱۲۱) ہے اور اس کی زکوٰۃ دوبھیڑیں ہیں ۔

تیسرانصاب:

( ۲۰۱) ہے اوراس کی زکوٰۃ تین بھیڑیں ہیں ۔

چوتھانصاب:

( ۳۰۱) ہے اوراس کی نصاب چاربھیڑیں ہیں ۔

پانچواں نصاب:

( ۴۰۰ )اور اس سے اوپرہے اوران کاحساب سوسے سوتک کرنا ضروری ہے اورہر سوبھیڑپرایک بھیڑدی جائے اور یہ ضروری نہیں کہ زکوٰۃ انہی چیزوں میں سے دی جائے بلکہ اگرکوئی اوربھیڑیں دے دی جائیں یابھیڑوں کی قیمت کے برابر نقدی (پیسہ) دے دیا جائے توکافی ہے۔

مسئلہ (۱۹۲۹)دونصابوں کے درمیان زکوٰۃ واجب نہیں ہے لہٰذااگرکسی کی بھیڑوں کی تعداد پہلے نصاب سے جوکہ چالیس ہے زیادہ ہولیکن دوسرے نصاب تک جو( ۱۲۱) ہے نہ پہنچی ہوتواسے چاہئے کہ صرف چالیس پرزکوٰۃ دے اور جوتعداد اس سے زیادہ ہو اس پرزکوٰۃ نہیں ہے اوراس کے بعدکے نصابوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۹۳۰)اونٹ،گائیں اوربھیڑیں جب نصاب کی حدتک پہنچ جائیں توخواہ وہ سب نرہوں یامادہ یا کچھ نرہوں اورکچھ مادہ ان پرزکوٰۃ واجب ہے۔

مسئلہ (۱۹۳۱)زکوٰۃ کے ضمن میں گائے اوربھینس ایک جنس کی شمارہوتی ہیں اور عربی اورغیرعربی اونٹ ایک جنس ہیں ۔اسی طرح بکری، بھیڑ اور بھیڑ کے وہ بچے جو چھ ماہ یاایک سال کے ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۳۲)اگرکوئی شخص زکوٰۃ کے طورپربھیڑدے تو(احتیاط واجب کی بناپر) ضروری ہے کہ وہ کم ازکم دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہواوراگربکری دے تواحتیاطاً ضروری ہے کہ وہ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔

مسئلہ (۱۹۳۳)جوبھیڑکوئی شخص زکوٰۃ کے طورپردے اگراس کی قیمت اس کی بھیڑوں سے معمولی سی کم بھی ہوتوکوئی حرج نہیں لیکن بہترہے کہ ایسی بھیڑدے جس کی قیمت اس کی ہربھیڑسے زیادہ ہو نیزگائے اوراونٹ کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۹۳۴)اگرکئی افراد باہم حصے دار ہوں توجس جس کاحصہ پہلے نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ زکوٰۃ دے اورجس کا حصہ پہلے نصاب سے کم ہواس پر زکوٰۃ واجب نہیں ۔

مسئلہ (۱۹۳۵)اگرایک شخص کی گائیں یااونٹ یابھیڑیں مختلف جگہوں پرہوں اور وہ سب ملاکرنصاب کے برابر ہوں توضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۳۶)اگرکسی شخص کی گائیں ،بھیڑیں یااونٹ بیماراورعیب دارہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۳۷)اگرکسی شخص کی ساری گائیں ،بھیڑیں یااونٹ بیماریاعیب داریا بوڑھے ہوں تووہ خودانہی میں سے زکوٰۃ دے سکتاہے لیکن اگروہ سب تندرست، بے عیب اورجوان ہوں تووہ ان کی زکوٰۃ میں بیمار یاعیب دار یابوڑھے جانورنہیں دے سکتا بلکہ اگران میں سے بعض تندرست اوربعض بیمار،کچھ عیب دار اورکچھ بے عیب اورکچھ بوڑھے اورکچھ جوان ہوں تواحتیاط( واجب) یہ ہے کہ ان کی زکوٰۃ میں تندرست،بے عیب اور جوان جانور دے۔

مسئلہ (۱۹۳۸)اگرکوئی شخص گیارہ مہینے ختم ہونے سے پہلے اپنی گائیں ، بھیڑیں اور اونٹ کسی دوسری چیزسے بدل لے یاجونصاب ہواسے اسی جنس کے اتنے ہی نصاب سے بدل لے مثلاً چالیس بھیڑیں دے کرچالیس بھیڑیں لے لے تواگرایساکرنازکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے نہ ہوتواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن اگرزکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے ہوتواس صورت میں جب کہ دونوں چیزیں ایک ہی نوعیت کا فائدہ رکھتی ہوں مثلاً دونوں بھیڑیں دودھ دیتی ہوں تواحتیاط لازم یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۳۹)جس شخص کوگائے،بھیڑاوراونٹ کی زکوٰۃ دینی ضروری ہواگروہ ان کی زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے دے دے توجب تک ان جانوروں کی تعداد نصاب سے کم نہ ہوضروری ہے کہ ہرسال زکوٰۃ دے اور اگروہ زکوٰۃ انہی جانوروں میں سے دے اوروہ پہلے نصاب سے کم ہوجائیں توزکوٰۃ اس پرواجب نہیں ہے مثلاًجو شخص چالیس بھیڑیں رکھتاہواگر ان کی تعداد اپنے دوسرے مال سے دے دے توجب تک اس کی بھیڑیں چالیس سے کم نہ ہوں ضروری ہے کہ ہرسال ایک بھیڑ دے اوراگرخودان بھیڑوں میں سے زکوٰۃ دے توجب تک ان کی تعداد چالیس تک نہ پہنچ جائے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مال تجارت کی زکوٰۃ

جس مال کاانسان معاوضہ دے کرمالک ہواہواوراس نے وہ مال تجارت اور فائدہ حاصل کرنے کے لئے محفوظ رکھاہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ(مندرجہ ذیل) چند شرائط کے ساتھ اس کی زکوٰۃ دے جو چالیسواں حصہ ہے:

۱
) مالک بالغ اورعاقل ہو۔

۲
) مال کم ازکم( ۱۵) مثقال سکہ دار سونا یا( ۱۵) مثقال سکہ دار چاندی کی قیمت رکھتا ہو۔

۳
) جس وقت سے اس مال سے فائدہ اٹھانے کی نیت کی ہو، اس پرایک سال گزر جائے۔

۴
) فائدہ اٹھانے کی نیت پورے سال باقی رہے۔پس اگرسال کے دوران اس کی نیت بدل جائے مثلاًاس کو اخراجات میں صرف کرنے کی نیت کرے توضروری نہیں کہ اس پرزکوٰۃ دے۔

۵
) مالک اس مال میں پوراسال تصرف کرسکتاہو۔

۶
) تمام سال اس کے سرمائے کی مقدار یااس سے زیادہ پرخریدار موجودہوں ۔پس اگرسال کے کچھ حصے میں سرمائے کے برابر مال کےخریدار نہ ہوں تواس پرزکوٰۃ دینا واجب نہیں ہے۔

زکوٰۃ کامصرف

مسئلہ (۱۹۴۰)زکوٰۃ کامال آٹھ جگہوں پر خرچ ہوسکتاہے :

۱:
)فقیر : وہ شخص جس کے پاس اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لئے سال بھرکے اخراجات نہ ہوں فقیرہے لیکن جس شخص کے پاس کوئی ہنریاجائداد یا سرمایہ ہوجس سے وہ اپنے سال بھرکے اخراجات پورے کرسکتاہووہ فقیرنہیں ہے۔

۲:
)مسکین : وہ شخص جوفقیرسے زیادہ تنگدست ہو،مسکین ہے۔

۳:
)وہ شخص جوامام علیہ السلام یانائب امام علیہ السلام کی جانب سے اس کام پر مامور ہو کہ زکوٰۃ جمع کرے، اس کی نگہداشت کرے، حساب کی جانچ پڑتال کرے اورجمع کیاہوامال امام علیہ السلام یا نائب امام علیہ السلام یا فقراء (ومساکین) کوپہنچائے۔

۴:
)وہ کفارجنہیں زکوٰۃ دی جائے تووہ دین اسلام کی جانب مائل ہوں یا جنگ میں یاجنگ کے علاوہ مسلمانوں کی مددکریں ۔اسی طرح وہ مسلمان جن کاایمان ان بعض چیزوں پرجوپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لائے ہیں کمزورہولیکن اگران کو زکوٰۃ دی جائے توان کے ایمان کی تقویت کاسبب بن جائے یا جو مسلمان شہنشاہ ولایت امام علی علیہ السلام کی ولایت پر ایمان نہیں رکھتے لیکن اگران کو زکوٰۃ دی جائے تووہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت (کبریٰ) کی طرف مائل ہوں اوراس پرایمان لے آئیں ۔

۵:
)غلاموں کوخریدکرانہیں آزادکرنا: جس کی تفصیل اس کے باب میں بیان ہوئی ہے۔

۶:
)وہ مقروض جواپناقرض ادانہ کرسکتاہو۔

۷:
)فی سبیل اللہ یعنی وہ کام جن کافائدہ تمام مسلمانوں کوپہنچتاہومثلاً مسجدبنانا، ایسا مدرسہ تعمیرکرناجہاں دینی تعلیم دی جاتی ہو،شہرکی صفائی کرنانیزسڑکوں کوپختہ بنانااورانہیں چوڑاکرنااورانھی جیسے دوسرے کام کرنا۔

۸:
)ابن السبیل: یعنی وہ مسافرجوسفرمیں ناچارہوگیاہو۔

یہ وہ مقامات ہیں جہاں زکوٰۃ خرچ ہوتی ہے۔ لیکن مالک زکوٰۃ کو امام ؑ یانائب امام کی اجازت کے بغیرنمبر(۳)اورمدنمبر(۴) میں خرچ نہیں کرسکتااوراسی طرح( احتیاط لازم) کی بناپرنمبر(۷) میں حاکم شرع کی اجازت ضروری نہیں ہے اورمذکورہ مدوں کے احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

مسئلہ (۱۹۴۱)احتیاط واجب یہ ہے کہ فقیراورمسکین اپنے اوراپنے اہل وعیال کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ زکوٰۃ نہ لے اوراگراس کے پاس کچھ رقم یاجنس ہوتو فقط اتنی زکوٰۃ لے جتنی رقم یاجنس اس کے سال بھرکے اخراجات کے لئے کم پڑتی ہو۔

مسئلہ (۱۹۴۲)جس شخص کے پاس پورے سال کا خرچ ہواگروہ اس کاکچھ حصہ استعمال کرلے اور بعدمیں شک کرے کہ جوکچھ باقی بچاہے وہ اس کے سال بھرکے اخراجات کے لئے کافی ہے یانہیں تووہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔

مسئلہ (۱۹۴۳)جس ہنرمندیاصاحب جائداد یاتاجرکی آمدنی اس کے سال بھرکے اخراجات سے کم ہووہ اپنے اخراجات کی کمی پوری کرنے کے لئے زکوٰۃ لے سکتاہے اور لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے کام کے اوزاریا جائدار یاسرمایہ اپنے اخراجات کے مصرف میں لے آئے۔

مسئلہ (۱۹۴۴)جس فقیر کے پاس اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لئے سال بھر کا خرچ نہ ہولیکن ایک گھر کامالک ہوجس میں وہ رہتاہویاسواری کی چیزرکھتاہو اوران کے بغیرگذربسرنہ کرسکتاہوخواہ یہ صورت اپنی عزت رکھنے کے لئے ہی ہووہ زکوٰۃ لے سکتاہے اور گھرکے سامان، برتنوں اور گرمی وسردی کے کپڑوں اورجن چیزوں کی اسے ضرورت ہو ان کے لئے بھی یہی حکم ہے اورجوفقیریہ چیزیں نہ رکھتاہواگراسے ان کی ضرورت ہوتو وہ زکوٰۃ سے خریدسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۴۵)وہ فقیر جو کام کرسکتا ہو اور اپنے اور اپنےاہل و عیال کا خرچ مہیاکرسکتا ہو لیکن کاہلی کی بناء پر یہ کام نہ کرے تو اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے اور وہ فقیر طالب علم جس کےلئے کام کرنا حصول علم کی راہ میں رکاوٹ بنے وہ کسی بھی صورت میں فقراء کے حصے کی زکوٰۃ نہیں لے سکتا سوائے اس صورت کے کہ جب علم کا حاصل کرنا اس پر واجب عینی ہوگیا ہو، او ر فی سبیل اللہ کے حصے کی زکوٰۃ اس صورت میں حاکم شرع کی اجازت کے ساتھ (احتیاط لازم کی بناء پر) لیناجائز ہےجب کہ اس کا علم حاصل کرنا عام منفعت کےلئے ہو اور وہ فقیر جس کے لئے کام سیکھنا مشکل نہ ہو( احتیاط واجب کی بناء پر) زکوٰۃ کے ذریعہ زندگی بسر نہ کرے لیکن جب تک ہنر کے سیکھنے میں مصروف یا مشغول ہے زکوٰۃ لے سکتا ہے۔

مسئلہ (۱۹۴۶)جوشخص پہلے فقیررہاہواوروہ کہتاہوکہ میں فقیرہوں تواگرچہ اس کے کہنے پرانسان کواطمینان نہ ہو پھربھی اسے زکوٰۃ دے سکتاہے۔لیکن جس شخص کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ وہ پہلے فقیررہاہے یانہیں تو (احتیاط کی بناپر)جب تک اس کے فقیرہونے کا اطمینان نہ کرلے،اس کوزکوٰۃ نہیں دے سکتا۔

مسئلہ (۱۹۴۷)جوشخص کہے کہ میں فقیرہوں اورپہلے فقیرنہ رہاہواگراس کے کہنے سے اطمینان نہ ہوتاہوتو اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔

مسئلہ (۱۹۴۸)جس شخص پرزکوٰۃ واجب ہواگرکوئی فقیراس کامقروض ہوتووہ زکوٰۃ دیتے ہوئے اپناقرض اس میں سے حساب کرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۴۹)اگرفقیرمرجائے اوراس کامال اتنانہ ہوجتنااس نے قرضہ دیناہو تو قرض خواہ قرضے کوزکوٰۃ میں شمار کرسکتاہے بلکہ اگرمتوفی کامال اس پرواجب الاداقرضے کے برابرہواوراس کے ورثااس کاقرضہ ادانہ کریں یاکسی اوروجہ سے قرض خواہ اپناقرضہ واپس نہ لے سکتاہوتب بھی وہ اپناقرضہ زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۵۰)یہ ضروری نہیں کہ کوئی شخص جوچیزفقیرکوبطورزکوٰۃ دے اس کے بارے میں اسے بتائے کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ اگرفقیرزکوٰۃ لینے میں شرمندگی محسوس کرتاہو تو مستحب ہے کہ اسے مال توزکوٰۃ کی نیت سے دیاجائے لیکن اس کازکوٰۃ ہونااس پرظاہر نہ کیاجائے۔

مسئلہ (۱۹۵۱)اگرکوئی شخص یہ خیال کرتے ہوئے کسی کوزکوٰۃ دے کہ وہ فقیرہے اور بعدمیں اسے پتا چلے کہ وہ فقیرنہ تھایامسئلے سے ناواقف ہونے کی بناپرکسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دےدے جس کے متعلق اسے علم ہوکہ وہ فقیرنہیں ہے تویہ کافی نہیں ہے لہٰذااس نے جو چیزاس شخص کوبطورزکوٰۃ دی تھی اگروہ باقی ہوتوضروری ہے کہ اس شخص سے واپس لے کرمستحق کودے اوراگرختم ہوگئی ہوتواگرلینے والے کوعلم تھاکہ وہ مال زکوٰۃ ہے توانسان اس کا عوض اس سے لے کرمستحق کودے سکتاہے اوراگرلینے والے کویہ علم نہ تھاکہ وہ مال زکوٰۃ ہے تواس سے کچھ نہیں لے سکتااورانسان کواپنے مال سے زکوٰۃ کاعوض مستحق کو دینا ضروری ہے یہاں تک کہ فقیر کی شناخت کےلئے تحقیق کی ہو یا شرعی دلیلوں کی بنا پر دیا ہو تب بھی احتیاط واجب کی بنیاد پر یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۹۵۲)جوشخص مقروض ہواور قرضہ ادانہ کرسکتاہواگراس کے پاس اپنا سال بھر کاخرچ بھی ہوتب بھی اپناقرضہ اداکرنے کے لئے زکوٰۃ لے سکتاہے لیکن ضروری ہے کہ اس نے جومال بطورقرض لیاہواسے کسی گناہ کے کام میں خرچ نہ کیاہو۔

مسئلہ (۱۹۵۳)اگرانسان ایک ایسے شخص کوزکوٰۃ دے جو مقروض ہواوراپناقرضہ ادا نہ کرسکتاہواوربعد میں اسے پتا چلے کہ اس شخص نے جوقرضہ لیاتھاوہ گناہ کے کام پرخرچ کیا تھاتواگروہ مقروض فقیرہوتو انسان نے جوکچھ اسے دیاہواسے سہم فقراء میں شمار کر سکتا ہے۔

مسئلہ (۱۹۵۴)جوشخص مقروض ہواوراپناقرضہ ادانہ کرسکتاہواگرچہ وہ فقیر نہ ہوتب بھی قرض خواہ قرضے کوجواسے مقروض سے وصول کرناہے زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۵۵)جس مسافر کازادراہ ختم ہوجائے یااس کی سواری قابل استعمال نہ رہے اگراس کاسفرگناہ کی غرض سے نہ ہواوروہ قرض لے کریااپنی کوئی چیزبیچ کرمنزل مقصود تک نہ پہنچ سکتاہوتواگرچہ وہ اپنے وطن میں فقیرنہ بھی ہوزکوٰۃ لے سکتاہے لیکن اگر وہ کسی دوسری جگہ سے قرض لے کریااپنی کوئی چیزبیچ کر سفرکے اخراجات حاصل کرسکتا ہو تو وہ فقط اتنی مقدار میں زکوٰۃ لے سکتاہے جس کے ذریعے وہ اپنی منزل تک پہنچ جائےاور (احتیاط واجب کی بناء پر) اپنے وطن میں کسی مال کو بیچ کریا کرائے پر دے کر زادراہ مہیا کرسکتا ہو تو وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔

مسئلہ (۱۹۵۶)جومسافر سفرمیں ناچارہوجائے اورزکوٰۃ لے اگراس کے وطن پہنچ جانے کے بعدزکوٰۃ میں سے کچھ بچ جائے اسے زکوٰۃ دینے والے کوواپس نہ پہنچاسکتاہو توضروری ہے کہ وہ زائدمال حاکم شرع کوپہنچادے اوراسے بتادے کہ یہ مال زکوٰۃہے۔

مستحقین زکوٰۃ کی شرائط

مسئلہ (۱۹۵۷) مالک جس شخص کواپنی زکوٰۃ دیناچاہتاہوضروری ہے کہ وہ شیعہ اثناعشری ہو۔اگرانسان کسی کو شیعہ سمجھتے ہوئے زکوٰۃ دے دے اوربعدمیں پتا چلے کہ وہ شیعہ نہ تھاتوضروری ہے کہ دوبارہ زکوٰۃ دےیہاں تک کہ اگر اس نے تحقیق کیا ہو یا شرعی دلیلیں قائم ہوگئی ہوں تب بھی (احتیاط واجب کی بناء پر) یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۱۹۵۸)اگرکوئی شیعہ بچہ یادیوانہ فقیرہوتوانسان اس کے سرپرست کواس نیت سے زکوٰۃ دے سکتاہے کہ وہ جوکچھ دے رہاہے وہ بچے یادیوانے کی ملکیت ہوگی اور اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ خود اپنے ہاتھوں سے یا کسی امین شخص کے ذریعہ اس بچے یا دیوانے کےلئے زکوٰۃ کو خرچ کرے اور جب وہ زکوٰۃ ان کے استعمال میں آجائے تو زکوٰۃ کی نیت کرے۔

مسئلہ (۱۹۵۹)جوفقیربھیک مانگتاہو اور اس کی غربت ثابت ہوجائے تواسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے لیکن جوشخص مال زکوٰۃ گناہ کے کام پرخرچ کرتاہوضروری ہے کہ اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ شخص جسے زکوٰۃ دیناگناہ کی طرف مائل کرنے کاسبب ہواگرچہ وہ اسے گناہ کے کام میں خرچ نہ بھی کرے اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔

مسئلہ (۱۹۶۰)جوشخص شراب پیتاہویانمازنہ پڑھتاہواوراسی طرح جوشخص کھلم کھلا گناہ کبیرہ کامرتکب ہوتاہواحتیاط واجب یہ ہے کہ اسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔

مسئلہ (۱۹۶۱)جوشخص مقروض ہواوراپناقرضہ ادانہ کرسکتاہواس کا قرضہ زکوٰۃ سے دیا جاسکتاہے خواہ اس شخص کے اخراجات زکوٰۃ دینے والے پرہی واجب کیوں نہ ہوں ۔

مسئلہ (۱۹۶۲)انسان ان لوگوں کے اخراجات جن کی کفالت اس پرواجب ہو( مثلاًاولاد کے اخراجات) زکوٰۃ سے ادانہیں کرسکتالیکن اگروہ خوداولاد کاخرچہ نہ دے تو دوسرے لوگ انہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں اور اگر جن لوگوں کا نفقہ اس پر ادا کرنا واجب ہے اور ان کے نفقہ کو ادا نہ کرپارہا ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے تو نفقہ زکوٰۃ کے ذریعہ دے سکتا ہے۔

مسئلہ (۱۹۶۳)اگرانسان اپنے بیٹے کوزکوٰۃ اس لئے دے تاکہ وہ اسے اپنی بیوی اورنوکرانی پرخرچ کرے یااپنے قرضہ کو تمام شرطوں کے ساتھ ادا کرے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۶۴)باپ اپنے بیٹے کوسہم ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں سے علمی اوردینی کتابیں جن کی بیٹے کوضرورت ہوخرید کرنہیں دے سکتا۔تاکہ وہ اپنے استعمال میں لے آئے لیکن اگررفاہ عامہ کے لئے ان کتابوں کی ضرورت ہوتو(احتیاط کی بناپر)حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

مسئلہ (۱۹۶۵)باپ فقیر بیٹے کی شادی کے لئے زکوٰۃ میں سے خرچ کرسکتاہے اوربیٹابھی باپ کے لئے ایساہی کرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۶۶)کسی ایسی عورت کوزکوٰۃ نہیں دی جاسکتی جس کاشوہر اسے خرچ دیتا ہواورایسی عورت جسے اس کاشوہر خرچ نہ دیتاہو(لیکن جوحاکم جور سے رجوع کرکے) شوہر کوخرچ دینے پرمجبور کرسکتی ہواسے زکوٰۃ نہ دی جائے۔

مسئلہ (۱۹۶۷)جس عورت نے متعہ کیاہواگروہ فقیرہوتواس کاشوہراوردوسرے لوگ اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں ۔ہاں اگرعقدکرنے کے موقع پرشوہر نے یہ شرط قبول کی ہو کہ اس کاخرچ دے گایاکسی اوروجہ سے اس کاخرچ دیناشوہرپرواجب ہواوروہ اس عورت کے اخراجات دیتاہوتواس عورت کوزکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔

مسئلہ (۱۹۶۸)عورت اپنے فقیرشوہرکوزکوٰۃ دے سکتی ہے خواہ شوہروہ زکوٰۃ اس عورت پرہی کیوں نہ خرچ کرے۔

مسئلہ (۱۹۶۹)سیدغیرسیدسے زکوٰۃ نہیں لے سکتالیکن اگرخمس اوردوسرے ذرائع آمدنی اس کے اخراجات کے لئے کافی نہ ہوں اورغیرسیدسے زکوٰۃ لینے پرمجبور ہوتو (احتیاط واجب کی بناء) پراس سے زکوٰۃ لے سکتاہے اور اسی طرح( احتیاط واجب کی بناء پر) امکانی صورت میں ہر روز کی مقدار کے اخراجات کو ہرروز لینے پر کفایت کرے۔

مسئلہ (۱۹۷۰)جس شخص کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ سیدہے یاغیرسید،اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے لیکن اگر خود سیادت کا دعویٰ کرے اور مالک اس کو زکوٰۃ دے تو وہ بری الذمہ نہیں ہوگا۔

زکوٰۃ کی نیت

مسئلہ (۱۹۷۱)ضروری ہے کہ انسان بہ قصدقربت( یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے) زکوٰۃ دے اگر بغیر قصد قربت کے ادا کرے گا تو کافی ہے اگر چہ گنہگار ہے اوراپنی نیت میں معین کرے کہ جوکچھ دے رہاہے وہ مال کی زکوٰۃ ہے یازکوٰۃ فطرہ ہے بلکہ مثال کے طورپر اگرگیہوں اورجوکی زکوٰۃ اس پر واجب ہواوروہ کچھ رقم زکوٰۃ کی قیمت کے طورپر دیناچاہے تواس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ معین کرے کہ گیہوں کی زکوٰۃ دے رہاہے یاجوکی۔

مسئلہ (۱۹۷۲)اگرکسی شخص پرمتعددچیزوں کی زکوٰۃ واجب ہواوروہ زکوٰۃ میں کوئی چیزدے لیکن کسی بھی چیزکی ’’نیت نہ کرے‘‘ توجوچیزاس نے زکوٰۃ میں دی ہے اگراس کی جنس وہی ہوجوان چیزوں میں سے کسی ایک کی ہے تووہ اسی جنس کی زکوٰۃ شمارہوگی۔ فرض کریں کہ کسی شخص پرچالیس بھیڑوں اورپندرہ مثقال سونے کی زکوٰۃ واجب ہے، اگروہ مثلاً ایک بھیڑزکوٰۃ میں دے اوران چیزوں میں سے کہ جن پرزکوٰۃ واجب ہے کسی کی بھی ’’نیت‘‘ نہ کرے تووہ بھیڑوں کی زکوٰۃ شمارہوگی۔لیکن اگروہ چاندی کے سکے یا کرنسی نوٹ دے جوان (چیزوں ) کے ہم جنس نہیں ہے توبعض (علماء) کے بقول وہ (سکے یانوٹ) ان تمام (چیزوں ) پرحساب سے بانٹ دیئے جائیں لیکن یہ بات اشکال سے خالی نہیں ہے بلکہ احتمال یہ ہے کہ وہ ان چیزوں میں سے کسی کی بھی (زکوٰۃ) شمارنہ ہوں گی اورمالک مال کی ملکیت میں باقی رہیں گے۔

مسئلہ (۱۹۷۳)اگرکوئی شخص اپنے مال کی زکوٰۃ (مستحق تک) پہنچانے کے لئے کسی کو وکیل بنائے تو جب وہ مال زکوٰۃ وکیل کے حوالے کرے تو ضروری ہے کہ نیت کرے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ فقیر تک زکوٰۃ پہونچنے کے وقت باقی رہے۔

زکوٰۃ کے متفرق مسائل

مسئلہ (۱۹۷۴)انسان گیہوں اورجوکوبھوسے سے الگ کرنے کے موقع پراور کھجور اور انگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰۃ فقیرکودےدے یا اپنے مال سے علیٰحدہ کردے اورضروری ہے کہ سونے،چاندی،گائے،بھیڑ اوراونٹ کی زکوٰۃ گیارہ مہینے ختم ہونے کے بعدفقیرکودے یا اپنے مال سے علیٰحدہ کردے۔

مسئلہ (۱۹۷۵)زکوٰۃ علیٰحدہ کرنے کے بعدایک شخص کے لئے لازم نہیں کہ اسے فوراً مستحق شخص کودے دے۔اور اگر عقلی اغراض ومقاصد کی بناء پر تاخیر کردے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۷۶)جوشخص زکوٰۃ مستحق شخص کوپہنچاسکتاہواگروہ اسے زکوٰۃ نہ پہنچائے اور اس کے کوتاہی برتنے کی وجہ سے مال زکوٰۃ تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔

مسئلہ (۱۹۷۷)جوشخص زکوٰۃ مستحق تک پہنچاسکتاہواگروہ اسے زکوٰۃ نہ پہنچائے اور مال زکوٰۃ حفاظت کرنے کے باوجود تلف ہوجائے توزکوٰۃ اداکرنے میں تاخیر کی کوئی صحیح وجہ نہ ہوتوضروری ہے کہ اس کاعوض دے لیکن اگرتاخیر کرنے کی کوئی صحیح وجہ تھی مثلاً ایک خاص فقیراس کی نظرمیں تھایاتھوڑاتھوڑاکرکے فقراء کودیناچاہتاتھاتو (احتیاط واجب کی بناء پر)اس کاضامن ہے۔

مسئلہ (۱۹۷۸)اگرکوئی شخص زکوٰۃ (عین اسی) مال سے اداکردے توباقیماندہ مال میں تصرف کرسکتاہے اور اگروہ زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے اداکردے تواس پورے مال میں تصرف کرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۷۹)انسان نے جومال زکوٰۃ کےلئے علیٰحدہ کیاہواسے اپنے لئے اٹھاکراس کی جگہ کوئی دوسری چیزنہیں رکھ سکتا۔

مسئلہ (۱۹۸۰)اگراس مال زکوٰۃ سے جوکسی شخص نے علیٰحدہ کردیاہوکوئی منفعت حاصل ہومثلاً جوبھیڑ بطورزکوٰۃ علٰیحدہ کی ہووہ بچہ جنے تویہ زکوٰۃ کے حکم میں ہے۔

مسئلہ (۱۹۸۱)جب کوئی شخص مال زکوٰۃ علیٰحدہ کررہاہواگراس وقت کوئی مستحق موجود ہوتوبہترہے کہ زکوٰۃ اسے دے دے بجزاس صورت کے کہ کوئی ایساشخص اس کی نظر میں ہوجسے زکوٰۃ دیناکسی وجہ سے بہترہو۔

مسئلہ (۱۹۸۲)اگرکوئی شخص حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس مال سے کاروبار کرے جو اس نے زکوٰۃ کے لئے علیٰحدہ کردیاہواوراس میں خسارہ ہوجائے تواسے زکوٰۃ میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر منافع ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر) ضروری ہے اسے مستحق کو دےدے۔

مسئلہ (۱۹۸۳)اگرکوئی شخص اس سے پہلے کہ زکوٰۃ اس پرواجب ہوکوئی چیز بطور زکوٰۃ فقیرکودے دے تو وہ زکوٰۃ میں شمارنہیں ہوگی اوراگراس پرزکوٰۃ واجب ہونے کے بعد وہ چیزجواس نے فقیرکودی تھی تلف نہ ہوئی ہواورفقیرابھی تک فقیری میں مبتلا ہوتو زکوٰۃ دینے والااس چیزکو جواس نے فقیرکودی تھی زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۸۴)اگرفقیریہ جانتے ہوئے کہ زکوٰۃ ایک شخص پرواجب نہیں ہوئی اس سے کوئی چیزبطورزکوٰۃ لے لے اور وہ چیزفقیرکی تحویل میں تلف ہوجائے توفقیر اس کا ذمہ دار ہے اورجب زکوٰۃ اس شخص پرواجب ہوجائے اورفقیراس وقت تک تنگدست ہوتو جوچیزاس شخص نے فقیرکودی تھی اس کاعوض زکوٰۃ میں شمارکرسکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۸۵)اگرکوئی فقیریہ نہ جانتے ہوئے کہ زکوٰۃ ایک شخص پرواجب نہیں ہوئی اس سے کوئی چیزبطور زکوٰۃ لے لے اوروہ چیزفقیرکی تحویل میں تلف ہوجائے توفقیرذمے دارنہیں ہے اوردینے والاشخص اس چیزکاعوض زکوٰۃ میں شمارنہیں کرسکتا۔

مسئلہ (۱۹۸۶)مستحب ہے کہ گائے،بھیڑاوراونٹ کی زکوٰۃ آبرومندفقرا کودی جائے اورزکوٰۃ دینے میں اپنے رشتہ داروں کودوسروں پراور اہل علم کوبے علم لوگوں پراورجولوگ ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں ان کو ہاتھ پھیلانے والوں پر مقدم کریں لیکن ممکن ہے کہ کسی فقیر کو زکوٰۃ دینا کسی اور وجہ سے بہتر ہو۔

مسئلہ (۱۹۸۷)بہترہے کہ زکوٰۃ علانیہ دی جائے اورمستحب صدقہ پوشیدہ طورپر دیا جائے۔

مسئلہ (۱۹۸۸)جوشخص زکوٰۃ دیناچاہتاہواگراس کے شہرمیں کوئی مستحق نہ ہواور وہ زکوٰۃ اس کے لئے معین مدمیں بھی صرف نہ کرسکتاہوتواسے دوسری جگہ منتقل کرسکتا ہے اور اس صورت میں اگر اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کیا ہو اور تلف ہوجائے تواس کا ضامن نہیں ہے اور حاکم شرع سے وکالت لےکر زکوٰۃ کو اس کی وکالت سے حاصل کرے اور اس کی اجازت سے دوسرے شہر منتقل کرلے اس صورت میں بھی اگر تلف ہوجائے ضامن نہیں ہے اور نقل و انتقال کی اجرت زکوٰۃ سے لے سکتا ہے۔

مسئلہ (۱۹۸۹)اگرزکوٰۃ دینے والے کواپنے شہرمیں کوئی مستحق مل جائے تب بھی وہ مال زکوٰۃ دوسرے شہر لے جاسکتاہے لیکن ضروری ہے کہ اس شہرمیں لے جانے کے اخراجات خودبرداشت کرے اوراگرمال زکوٰۃ تلف ہوجائے تووہ خودذمہ دار ہے بجز اس صورت کے کہ مال زکوٰۃ دوسرے شہرمیں حاکم شرع کے حکم سے لے گیاہو۔

مسئلہ (۱۹۹۰)جوشخص گیہوں ،جو،کشمش اورکھجوربطورزکوٰۃ دے رہاہو،ان اجناس کے ناپ تول کی اجرت اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔

مسئلہ (۱۹۹۱)انسان کے لئے مکروہ ہے کہ مستحق سے درخواست کرے کہ جوزکوٰۃ اس نے اس سے لی ہے اسی کے ہاتھ فروخت کردے لیکن اگرمستحق نے جوچیزبطور زکوٰۃ لی ہے اسے بیچناچاہے توجب اس کی قیمت طے ہوجائے توجس شخص نے مستحق کوزکوٰۃ دی ہواس چیزکوخریدنے کے لئے اس کاحق دوسروں پرفائق ہے۔

مسئلہ (۱۹۹۲)اگرکسی شخص کوشک ہو جوزکوٰۃ اس پرواجب ہوئی تھی وہ اس نے دی ہے یانہیں اور جس مال میں زکوٰۃ واجب ہوئی تھی وہ بھی موجودہوتوضروری ہے کہ زکوٰۃ دے خواہ اس کاشک گذشہ سالوں کی زکوٰۃ کے متعلق ہی کیوں نہ ہواوراگروہ ضائع ہوچکاہو تواگرچہ اسی سال کی زکوٰۃ کے متعلق ہی شک کیوں نہ ہواس پرزکوٰۃ نہیں ہے۔

مسئلہ (۱۹۹۳)فقیریہ نہیں کرسکتاکہ زکوٰۃ لینے سے پہلے اس کی مقدار سے کم مقدار پر سمجھوتہ کرلے یا کسی چیزکواس کی قیمت سے زیادہ قیمت پربطورزکوٰۃ قبول کرے اور اسی طرح مالک بھی یہ نہیں کرسکتاکہ مستحق کواس شرط پرزکوٰۃ دے کہ وہ مستحق اسے واپس کر دے گالیکن اگرمستحق زکوٰۃ لینے کے بعدراضی ہوجائے اوراس زکوٰۃ کواسے واپس کر دے توکوئی حرج نہیں مثلاً کسی شخص پربہت زیادہ زکوٰۃ قرض ہواور فقیر ہوجانے کی وجہ سے وہ زکوٰۃ ادانہ کرسکتاہواوراس نے توبہ کرلی ہوتواگرفقیرراضی ہوجائے کہ اس سے زکوٰۃ لے کرپھراسے بخش دے توکوئی حرج نہیں ۔

مسئلہ (۱۹۹۴)انسان قرآن مجید، دینی کتابیں یادعاکی کتابیں سہم فی سبیل اللہ سے خریدکروقف نہیں کرسکتا۔لیکن اگررفاہ عامہ کے لئے ان چیزوں کی ضرورت ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر)حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

مسئلہ (۱۹۹۵)انسان مال زکوٰۃ سے جائداد خریدکراپنی اولادیاان لوگوں کووقف نہیں کرسکتاجن کاخرچ اس پرواجب ہو،تاکہ وہ اس جائداد کی منفعت اپنے مصرف میں لے آئیں ۔

مسئلہ (۱۹۹۶)حج اور زیارات وغیرہ پرجانے کے لئے انسان فی سبیل اللہ کے حصے سے زکوٰۃ لے سکتاہے اگرچہ وہ فقیرنہ ہویااپنے سال بھرکے اخراجات کے لئے زکوٰۃ لے چکاہولیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس کاحج اورزیارات وغیرہ کے لئے جانالوگوں کے مفادمیں ہواور(احتیاط کی بناپر)ایسے کاموں میں زکوٰۃ خرچ کرنے کے لئے حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

مسئلہ (۱۹۹۷)اگرایک مالک اپنے مال کی زکوٰۃ دینے کے لئے کسی فقیر کو وکیل بنائے اور فقیر کو یہ احتمال ہوکہ مالک کا ارادہ یہ تھا کہ وہ خود (یعنی فقیر) اس مال سے کچھ نہ لے تواس صورت میں وہ کوئی چیزاس میں سے اپنے لئے نہیں لے سکتااوراگرفقیر کویہ یقین ہوکہ مالک کاارادہ یہ نہیں تھاتووہ اپنے لئے بھی لے سکتاہے۔

مسئلہ (۱۹۹۸)اگرکوئی فقیر اونٹ، گائیں ، بھیڑیں ، سونااورچاندی بطورزکوٰۃ حاصل کرے اوران میں وہ سب شرائط موجودہوں جوزکوٰۃ واجب ہونے کے لئے بیان کی گئی ہیں توضروری ہے کہ فقیران پرزکوٰۃ دے۔

مسئلہ (۱۹۹۹)اگردواشخاص ایک ایسے مال میں حصہ دارہوں جس کی زکوٰۃ واجب ہو چکی ہواوران میں سے ایک اپنے حصے کی زکوٰۃ دے دے اوربعدمیں وہ مال تقسیم کرلیں (اورجوشخص زکوٰۃ دے چکاہے) اگرچہ اسے علم ہوکہ اس کے ساتھی نے اپنے حصے کی زکوٰۃ نہیں دی اورنہ ہی بعدمیں دے گاتواس کااپنے حصے میں تصرف کرنااشکال نہیں رکھتا۔

مسئلہ (۲۰۰۰)اگرخمس اورزکوٰۃ کسی شخص کے ذمہ واجب ہواورکفارہ اورمنت وغیرہ بھی اس پرواجب ہواور وہ مقروض بھی ہواوران سب کی ادائیگی نہ کرسکتاہوتواگر وہ مال جس پرخمس یازکوٰۃ واجب ہوچکی ہو تلف نہ ہوگیاہوتوضروری ہے کہ خمس اورزکوٰۃ دے اوراگروہ مال تلف ہوگیاہوتوکفارے اورنذرسے پہلے زکوٰۃ،خمس اورقرض ادا کرے۔

مسئلہ (۲۰۰۱)جس شخص کے ذمہ خمس یازکوٰۃ ہواورحج بھی اس پرواجب ہواور وہ مقروض بھی ہواگروہ مرجائے اوراس کامال ان تمام چیزوں کے لئے کافی نہ ہواوراگروہ مال جس پرخمس اورزکوٰۃ واجب ہوچکے ہوں تلف نہ ہوگیاہوتوضروری ہے کہ خمس یازکوٰۃ اداکی جائے اوراس کا باقی ماندہ مال قرض کی ادائیگی پرخرچ کیاجائے اوراگروہ مال جس پر خمس اورزکوٰۃ واجب ہوچکی ہوتلف ہوگیاہوتوضروری ہے کہ اس کامال قرض کی ادائیگی پر خرچ کیاجائے اوراس صورت میں اگرکچھ بچ جائے توحج کیاجائے اور اگرزیادہ بچا ہوتو اسے خمس اورزکوٰۃ پرتقسیم کردیاجائے۔

مسئلہ (۲۰۰۲)جو شخص علم حاصل کرنے میں مشغول ہووہ جس وقت علم حاصل نہ کرے اس وقت اپنی روزی کمانے کے لئے کام کرسکتاہے۔اگراس کاعلم حاصل کرنا واجب عینی ہوتوفقراء کے حصے سے اس کوزکوٰۃ دے سکتے ہیں اوراگراس علم کاحاصل کرنا عوامی فلاح و بہبود کے لئے ہوتوفی سبیل اللہ کے مدسے( احتیاط کی بناپر)حاکم شرع کی اجازت سے اس کوزکوٰۃ دیناجائزہے اوران دوصورتوں کے علاوہ اس کوزکوٰۃ دیناجائزنہیں ہے۔

زکوٰۃ فطرہ

مسئلہ (۲۰۰۳)عیدالفطرکی رات غروب آفتاب کے وقت جوشخص بالغ اورعاقل ہو اور نہ توفقیرہونہ ہی کسی دوسرے کا غلام ہو اوربےہوش بھی نہ ہو توضروری ہے کہ اپنے لئے اوران لوگوں کے لئے جو اس کے وہاں کھاناکھاتے ہیں فی کس ایک صاع جس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ تقریباً تین کلوہوتاہے ان غذاؤں میں سے جواس کے شہر (یاعلاقے) میں استعمال ہوتی ہوں مثلاً گیہوں یاجویاکھجوریاکشمش یاچاول یاجوارمستحق شخص کودے اوراگران کے بجائے ان کی قیمت نقدی شکل میں دے تب بھی کافی ہے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ جو غذااس کے شہر میں عام طورپراستعمال نہ ہوتی ہوچاہے وہ گیہوں ،جو،کھجوریاکشمش ہو، نہ دے۔

مسئلہ (۲۰۰۴)جس شخص کے پاس اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے سال بھرکا خرچ نہ ہواوراس کا کوئی روزگار بھی نہ ہوجس کے ذریعے وہ اپنے اہل وعیال کاسال بھر کا خرچ پوراکرسکے وہ فقیرہے اوراس پرفطرہ دیناواجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۰۵)جولوگ عیدالفطرکی رات غروب کے وقت کسی شخص کے وہاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری ہے کہ وہ شخص ان کافطرہ دے،اس سے قطع نظر کہ وہ چھوٹے ہوں یابڑے مسلمان ہوں یاکافر،ان کاخرچہ اس پرواجب ہویانہ ہواوروہ اس کے شہر میں ہوں یاکسی دوسرے شہرمیں ہوں ۔

مسئلہ (۲۰۰۶)اگرکوئی شخص ایک ایسے شخص کوجواس کے وہاں کھاناکھانے والا شمار کیا جائے، اسے دوسرے شہرمیں نمائندہ مقررکرے کہ اس کے (یعنی صاحب خانہ کے) مال سے اپنافطرہ دےدے اوراسے اطمینان ہوکہ وہ شخص فطرہ دےدے گا تو خود صاحب خانہ کے لئے اس کافطرہ دیناضروری نہیں ۔

مسئلہ (۲۰۰۷)جومہمان عیدالفطرکی رات غروب سے پہلے صاحب خانہ کے گھرآئے اوراس کے ہاں کھاناکھانے والوں میں (اگرچہ وقتی طور پر) شمار ہواس کا فطرہ صاحب خانہ پرواجب ہے۔

مسئلہ (۲۰۰۸)جومہمان عیدالفطرکی رات غروب کے بعدواردہواگروہ صاحب خانہ کےو ہاں کھاناکھانے والاشمار ہوتواس کافطرہ صاحب خانہ پر(احتیاط کی بناپر) واجب ہے اور اگرکھاناکھانے والاشمارنہ ہوتوواجب نہیں ہے وہ شخص جس کو انسان نے شب عیدالفطر افطار کےلئے بلایاہے وہ کھانا کھانے والوں میں حساب نہیں ہوتا اور اس کا فطرہ صاحب خانہ پر نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۰۹)اگرکوئی شخص عیدالفطرکی رات غروب کے وقت دیوانہ ہواوراس کی دیوانگی عیدالفطر کے دن ظہر کے وقت تک باقی رہے تواس پرفطرہ واجب نہیں ہے ورنہ (احتیاط واجب کی بناپر)لازم ہے کہ فطرہ دے۔

مسئلہ (۲۰۱۰)غروب آفتاب سے پہلے اگرکوئی بچہ بالغ ہوجائے یاکوئی دیوانہ عاقل ہوجائے یاکوئی فقیر غنی ہوجائے تواگروہ فطرہ واجب ہونے کی شرائط پوری کرتاہو تو ضروری ہے کہ فطرہ دے۔

مسئلہ (۲۰۱۱)جس شخص پرعیدالفطرکی رات غروب کے وقت زکوٰۃ فطرہ کے واجب ہونے کے شرائط نہ ہوں اگر عیدکے دن ظہر کے وقت سے پہلے تک فطرہ واجب ہونے کی شرائط اس میں موجودہو جائیں تواحتیاط واجب یہ ہے کہ فطرہ دے۔

مسئلہ (۲۰۱۲)اگرکوئی کافرعیدالفطرکی رات غروب آفتاب کے بعدمسلمان ہو جائے تواس پرفطرہ واجب نہیں ہے لیکن اگرایک ایسامسلمان جوشیعہ نہ ہووہ عیدکاچاند دیکھنے کے بعدشیعہ ہوجائے توضروری ہے کہ فطرہ دے۔

مسئلہ (۲۰۱۳)جس شخص کے پاس صرف اندازاً ایک صاع(تقریباً تین کلو) گیہوں یااسی جیسی کوئی جنس ہواس کے لئے مستحب ہے کہ فطرہ دے اور اگراس کے اہل وعیال بھی ہوں اوروہ ان کا فطرہ بھی دیناچاہتاہوتووہ ایساکرسکتاہے کہ فطرے کی نیت سے ایک صاع گیہوں وغیرہ اپنے اہل وعیال میں سے کسی ایک کودے دے اور وہ بھی اسی نیت سے دوسرے کو دے دے اوروہ اسی طرح دیتے رہیں حتیٰ کہ وہ جنس خاندان کے آخری فردتک پہنچ جائے اور بہترہے کہ جوچیزآخری فردکوملے وہ کسی ایسے شخص کو دے جوخودان لوگوں میں سے نہ ہوجنہوں نے فطرہ ایک دوسرے کودیاہے اوراگران لوگوں میں سے کوئی نابالغ ہو یا دیوانہ تو اس کاسرپرست اس کے بجائے فطرہ لے سکتاہے اوراحتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ چیزنابالغ کے لئے نہ لی جائے بلکہ اپنےلئے لے۔

مسئلہ (۲۰۱۴)اگرعیدالفطرکی رات غروب کے بعدکسی کے وہاں بچہ پیداہوتواس کا فطرہ دیناواجب نہیں ہے لیکن اگر غروب سے پہلے بچہ پیدا ہویا شادی کرے تواگر صاحب خانہ کےو ہاں کھاناکھانے والوں میں سمجھے جائیں تو ضروری ہے کہ ان سب کافطرہ دے اگر دوسرے کے وہاں کھانا کھانے والے شمارکئے جائیں تو اس پر فطرہ دینا واجب نہیں ہے اور اگر کسی کے وہاں بھی کھانا کھانے والے شمار نہ ہوں تو اس عورت کا فطرہ خود اس پر واجب ہے اور بچے پر کچھ نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۱۵)اگرکوئی شخص کسی کے یہاں کھاناکھاتاہواورغروب سے پہلے کسی دوسرے کے وہاں کھاناکھانے والاہوجائے تواس کافطرہ اسی شخص پرواجب ہے جس کے یہاں وہ کھاناکھانے والابن جائے مثلاً اگربیٹی غروب سے پہلے شوہر کے گھرچلی جائے توضروری ہے کہ شوہراس کافطرہ دے۔

مسئلہ (۲۰۱۶)جس شخص کافطرہ کسی دوسرے شخص پرواجب ہواس پراپنافطرہ خود دیناواجب نہیں ہےلیکن اگر وہ فطرہ نہ دے یا نہ دے سکتا ہوتو خود انسان پر( احتیاط کی بناء پر) واجب ہوجاتا ہے چنانچہ گذشتہ شرائط جو مسئلہ نمبر( ۲۰۰۳) میں بیان کی گئی ہیں پائی جائیں تو اپنا فطرہ دے۔

مسئلہ (۲۰۱۷)جس شخص کافطرہ کسی دوسرے شخص پرواجب ہواگروہ خوداپنافطرہ دےدے توجس شخص پراس کا فطرہ واجب ہواس پرسے اس کی ادائیگی کاوجوب ساقط نہیں ہوتا۔

مسئلہ (۲۰۱۸)غیرسید،سیدکوفطرہ نہیں دے سکتاحتیٰ کہ اگرسیداس کے وہاں کھانا کھاتا ہو تب بھی اس کا فطرہ وہ کسی دوسرے سیدکونہیں دے سکتا۔

مسئلہ (۲۰۱۹)جوبچہ ماں یادایہ کادودھ پیتاہواس کا فطرہ اس شخص پرواجب ہے جو ماں یادایہ کے اخراجات برداشت کرتاہولیکن اگرماں یادایہ کاخرچ خودبچے کے مال سے پورا ہوتوبچے کافطرہ کسی پرواجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۲۰)انسان اگرچہ اپنے اہل وعیال کاخرچ حرام مال سے دیتاہو، ضروری ہے کہ ان کافطرہ حلال مال سے دے۔

مسئلہ (۲۰۲۱)اگرانسان کسی شخص کواجرت پررکھے جیسے مستری،بڑھئی یاخدمت گار اوراس کاخرچ اس طرح دے کہ اس کاکھاناکھانے والوں میں شمارہوتوضروری ہے کہ اس کافطرہ بھی دے۔ لیکن اگر اسے صرف کام کی مزدوری دے تواس (اجیر) کافطرہ اداکرنااس پرواجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۲۲)اگرکوئی شخص عیدالفطرکی رات غروب سے پہلے فوت ہوجائے تواس کا اوراس کے اہل وعیال کافطرہ اس کے مال سے دیناواجب نہیں ۔ لیکن اگرغروب کے بعد فوت ہوتومشہورقول کی بناپرضروری ہے کہ اس کااوراس کے اہل وعیال کافطرہ اس کے مال سے دیاجائے۔لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے اوراس مسئلے میں احتیاط کے پہلوکوترک نہیں کرناچاہئے۔

زکوٰۃ فطرہ کامصرف

مسئلہ (۲۰۲۳)فطرہ (احتیاط واجب کی بناپر)فقط ان شیعہ( اثناعشری) فقراء کودینا ضروری ہے،جو ان شرائط پرپورے اترتے ہوں جن کاذکرزکوٰۃ کے مستحقین میں ہوچکا ہے اوراگرشہرمیں شیعہ( اثناعشری) فقراء نہ ملیں تودوسرے مسلمان فقراء کوفطرہ دے سکتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ کسی بھی صورت میں ’’ناصبی‘‘ کونہ دیاجائے۔

مسئلہ (۲۰۲۴)اگرکوئی شیعہ بچہ فقیرہوتوانسان یہ کرسکتاہے کہ فطرہ اس پرخرچ کرے یااس کے سرپرست کودے کراسے بچے کی ملکیت قراردے۔

مسئلہ (۲۰۲۵)جس فقیر کوفطرہ دیاجائے ضروری نہیں کہ وہ عادل ہولیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ شرابی اوربے نمازی کواوراس شخص کوجوکھلم کھلاگناہ کرتاہوفطرہ نہ دیا جائے۔

مسئلہ (۲۰۲۶)جوشخص فطرہ ناجائزکاموں میں خرچ کرتاہوضروری ہے کہ اسے فطرہ نہ دیاجائے۔

مسئلہ (۲۰۲۷)احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک فقیرکوایک صاع(تقریباً تین کلو) سے کم فطرہ نہ دیا جائے۔ مگر یہ کہ جو فقیر موجود ہیں ان سب تک نہ پہونچ سکےالبتہ اگرایک صاع سے زیادہ دیاجائے توکوئی اشکال نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۲۸)جب کسی جنس کی قیمت اسی جنس کی معمولی قسم سے دگنی ہومثلاًکسی گیہوں کی قیمت معمولی قسم کے گیہوں کی قیمت سے دوچندہوتواگرکوئی شخص اس (عمدہ جنس ) کا آدھا صاع بطورفطرہ دے تویہ کافی نہیں ہے بلکہ اگروہ آدھاصاع فطرہ کی قیمت کی نیت سے بھی دے توبھی کافی نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۲۹)انسان آدھاصاع ایک جنس کامثلاًگیہوں کااورآدھاصاع کسی دوسری جنس مثلاًجوکابطورفطرہ نہیں دے سکتابلکہ اگریہ آدھاصاع فطرہ کی قیمت کی نیت سے بھی دے توکافی نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۳۰)انسان کےلئے مستحب ہے کہ زکوٰۃ دینے میں اپنے فقیررشتے داروں اور ہمسایوں کودوسرے لوگوں پرترجیح دے اور بہتریہ ہے کہ اہل علم وفضل اور دین دار لوگوں کو دوسروں پرترجیح دے۔

مسئلہ (۲۰۳۱)اگرانسان یہ خیال کرتے ہوئے کہ ایک شخص فقیرہے اسے فطرہ دے اوربعدمیں معلوم ہوکہ وہ فقیرنہ تھاتواگراس نے جومال فقیرکودیاتھاوہ ختم نہ ہوگیا ہو تو ضروری ہے کہ واپس لے لے اور مستحق کودے دے اوراگرواپس نہ لے سکتا ہو تو ضروری ہے کہ خوداپنے مال سے فطرے کاعوض دے اوراگروہ مال ختم ہوگیاہولیکن لینے والے کو علم ہوکہ جوکچھ اس نے لیاہے وہ فطرہ ہے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے اوراگراسے یہ علم نہ ہوتوعوض دینااس پرواجب نہیں ہے اورضروری ہے کہ انسان فطرے کاعوض دے۔

مسئلہ (۲۰۳۲)اگرکوئی شخص کہے کہ میں فقیرہوں تواسے فطرہ نہیں دیاجاسکتابجز اس صورت کے کہ انسان کواس کے کہنے سے اطمینان ہوجائے یاانسان کوعلم ہوکہ وہ پہلے فقیر تھا۔

زکوٰۃ فطرہ کے متفرق مسائل

مسئلہ (۲۰۳۳)ضروری ہے کہ انسان فطرہ قربت کے قصدسے( یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے) دے اوراسے دیتے وقت فطرے کی نیت کرے۔

مسئلہ (۲۰۳۴)اگرکوئی شخص ماہ رمضان المبارک سے پہلے فطرہ دے دے تویہ صحیح نہیں ہے اور بہتریہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں بھی فطرہ نہ دے البتہ اگرماہ رمضان المبارک سے پہلے کسی فقیرکوقرضہ دے اورجب فطرہ اس پرواجب ہوجائے،قرضے کو فطرے میں شمارکرلے توکوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۳۵)گیہوں یاکوئی دوسری چیزجوفطرہ کے طورپردی جائے ضروری ہے کہ اس میں کوئی اور جنس یامٹی نہ ملی ہوئی ہواوراگراس میں کوئی ایسی چیزملی ہوئی ہواور خالص مال ایک صاع تک پہنچ جائے اورملی ہوئی چیزجداکئے بغیر استعمال کے قابل ہویا جداکرنے میں حدسے زیادہ زحمت نہ ہویاجوچیزملی ہوئی ہووہ اتنی کم ہوکہ قابل توجہ نہ ہوتو کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۳۶)اگرکوئی شخص عیب دارچیزفطرے کے طورپردے تو(احتیاط واجب کی بناپر)کافی نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۳۷)جس شخص کوکئی اشخاص کافطرہ دیناہواس کے لئے ضروری نہیں کہ سارا فطرہ ایک ہی جنس سے دے مثلاً اگربعض افراد کافطرہ گیہوں سے اور بعض دوسروں کا جوسے دے توکافی ہے۔

مسئلہ (۲۰۳۸)عیدکی نمازپڑھنے والے شخص کو(احتیاط واجب کی بناپر)عیدکی نماز سے پہلے فطرہ دیناضروری ہے لیکن اگرکوئی شخص نماز عیدنہ پڑھے توفطرے کی ادائیگی میں ظہر کے وقت تک تاخیرکرسکتاہے۔

مسئلہ (۲۰۳۹)اگرکوئی شخص فطرے کی نیت سے اپنے مال کی کچھ مقدارعلیٰحدہ کر دے اورعیدکے دن ظہرکے وقت تک مستحق کونہ دے توجب بھی وہ مال مستحق کودے، فطرے کی نیت کرے اور اگر یہ تاخیر کسی عاقلانہ مقصد کی بناء پر ہوتو کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۴۰)اگرکوئی شخص روز عید ظہر تک فطرہ نہ دے اور الگ بھی نہ کرے تواس کے بعد (احتیاط واجب کی بناء پر)ادااورقضاکی نیت کئے بغیرفطرہ دے۔

مسئلہ (۲۰۴۱)اگرکوئی شخص فطرہ الگ کردے تووہ اسے اپنے مصرف میں لاکر دوسرا مال اس کی جگہ بطورفطرہ نہیں رکھ سکتا۔

مسئلہ (۲۰۴۲)اگرکسی شخص کے پاس ایسامال ہوجس کی قیمت فطرہ سے زیادہ ہو تو اگروہ شخص فطرہ نہ دے اورنیت کرے کہ اس مال کی کچھ مقدارفطرے کے لئے ہوگی تو (احتیاط واجب کی بناء پر) کافی نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۴۳)کسی شخص نے جومال فطرے کے لئے الگ کیاہواگروہ تلف ہو جائے تواگروہ شخص فقیر تک پہنچ سکتاتھااوراس نے فطرہ دینے میں تاخیرکی ہویااس کی حفاظت کرنے میں کوتاہی کی ہوتوضروری ہے کہ اس کا عوض دے اوراگرفقیرتک نہیں پہنچ سکتاتھااوراس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کی ہوتوپھرذمہ دار نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۰۴۴)اگرفطرہ دینے والے کے اپنے علاقے میں مستحق مل جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ فطرہ دوسری جگہ نہ لے جائے اور اگر لے جائے اور مستحق تک پہونچا دے تو کافی ہے اوراگردوسری جگہ لے جائے اوروہ تلف ہو جائے توضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
حج کے اَحکام ← → خمس کے احکام
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français