مرجع عالی قدر اقای سید علی حسینی سیستانی کے دفتر کی رسمی سائٹ

فتووں کی کتابیں » توضیح المسائل

طلاق کے احکام ← → مُعَامَلات

نکاح کے احکام

عقدازدواج کے ذریعے عورت،مردپراورمرد،عورت پرحلال ہوجاتے ہیں اورعقد کی دوقسمیں ہیں : پہلی دائمی اور دوسری غیردائمی - عقد دائمی اسے کہتے ہیں جس میں ازدواج کی مدت معین نہ ہواوروہ ہمیشہ کے لئے ہواور جس عورت سے اس قسم کاعقد کیاجائے اسے دائمہ کہتے ہیں اورغیردائمی عقدوہ ہے جس میں ازدواج کی مدت معین ہومثلاً عورت کے ساتھ ایک گھنٹے یاایک دن یاایک مہینے یاایک سال یااس سے زیادہ مدت کے لئے عقدکیاجائے لیکن اس عقد کی مدت عورت اورمرد کی عام عمرسے زیادہ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس صورت میں عقد باطل ہوجائے گا۔جب عورت سے اس قسم کاعقد کیاجائے تواسے ’’متعہ‘‘ یا’’صیغہ‘‘ کہتے ہیں ۔

عقد کے احکام

مسئلہ (۲۳۸۲)ازدواج خواہ دائمی ہویاغیردائمی اس میں صیغہ پڑھنا ضروری ہے۔ عورت اور مرد کامحض رضامندہونااسی طرح (نکاح نامہ) لکھنا (احتیاط واجب کی بناء پر)کافی نہیں ہے۔نکاح کاصیغہ یاتوعورت اورمردخودپڑھتے ہیں یاکسی کووکیل مقرر کر لیتے ہیں تاکہ وہ ان کی طرف سے پڑھ دے۔

مسئلہ (۲۳۸۳)وکیل کامردہونالازم نہیں بلکہ عورت بھی نکاح کاصیغہ پڑھنے کے لئے کسی دوسرے کی جانب سے وکیل ہوسکتی ہے۔

مسئلہ (۲۳۸۴)عورت اورمردکوجب تک اطمینان نہ ہوجائے کہ ان کے وکیل نے صیغہ پڑھ دیاہے اس وقت تک وہ ایک دوسرے کو محرمانہ نظروں سے نہیں دیکھ سکتے اوراس بات کاگمان کہ وکیل نے صیغہ پڑھ دیاہے کافی نہیں بلکہ اگروکیل کہہ دے کہ میں نے صیغہ پڑھ دیاہے لیکن اس کی بات پر اطمینان نہ ہوتواحتیاط واجب کی بناء پر اس کی بات پر ترتیب اثر نہ دیا جائے ۔

مسئلہ (۲۳۸۵)اگرکوئی عورت کسی کو وکیل مقررکرے اورکہے کہ تم میرانکاح دس دن کے لئے فلاں شخص کے ساتھ پڑھ دواوردس دن کی ابتداکومعین نہ کرے تووہ (نکاح خوان) وکیل جن دس دنوں کے لئے چاہے اسے اس مردکے نکاح میں دے سکتاہے لیکن اگروکیل کومعلوم ہوکہ عورت کامقصد کسی خاص دس دن یاگھنٹے کاہے توپھراسے چاہئے کہ عورت کے قصد کے مطابق صیغہ پڑھے۔

مسئلہ (۲۳۸۶)عقددائمی یاعقدغیردائمی کاصیغہ پڑھنے کے لئے ایک شخص دو اشخاص کی طرف سے وکیل بن سکتاہے اورانسان یہ بھی کرسکتاہے کہ عورت کی طرف سے وکیل بن جائے اوراس سے خود دائمی یاغیردائمی نکاح کرلے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ نکاح دواشخاص پڑھیں ۔

نکاح پڑھنے کاطریقہ

مسئلہ (۲۳۸۷)اگرعورت اورمردخوداپنے دائمی نکاح کاصیغہ پڑھیں تومہرمعین کرنے کے بعدپہلے عورت کہے: ’’زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ‘‘ یعنی میں نے اس مہرپرجومعین ہوچکاہے اپنے آپ کوتمہاری بیوی بنایااوراس کے فوراًبعدمردکہے : ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ‘‘ یعنی میں نے ازدواج کوقبول کیاتونکاح صحیح ہے اور اسی طرح اگر صرف’’قبلت‘‘کہے تو بھی صحیح ہے اور اگروہ کسی دوسرے کووکیل مقررکریں کہ ان کی طرف سے صیغۂ نکاح پڑھ دے تواگر مثال کے طورپرمردکانام احمداورعورت کانام فاطمہ ہواورعورت کاوکیل کہے:’’زَوَّجْتُ مُوَکِّلَکَ اَحْمَدَمُوَکِّلَتِیْ فَاطِمَۃَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ‘‘ اوراس کے فوراً بعدمرد کاوکیل کہے:’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ لِمُوَکِّلِیْ اَحْمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ‘‘ تونکاح صحیح ہوگا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مردجولفظ کہے وہ عورت کے کہے جانے والے لفظ کے مطابق ہومثلاً اگرعورت’’زَوَّجْتُ‘‘ کہے تو مردبھی ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیجَ‘‘ کہے اور ’’قَبِلْتُ النِّکَاحَ‘‘ نہ کہے۔

مسئلہ (۲۳۸۸)اگرخودعورت اورمردچاہیں توغیردائمی نکاح کاصیغۂ نکاح کی مدت اور مہرمعین کرنے کے بعدپڑھ سکتے ہیں ۔لہٰذااگرعورت کہے:’’زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ فِی الْمُدَّۃِ الْمَعْلُوْمَۃِ عَلَی الْمَھْرِالْمَعْلُوْمِ‘‘اوراس کےفوراًبعدمردکہے: ’’قَبِلْتُ‘‘ تو نکاح صحیح ہے اوراگروہ کسی اورشخص کووکیل بنائیں اورپہلے عورت کاوکیل مردکے وکیل سے کہے:’’زَوَّجْتُ مُوَکِّلَتِیْ مُوَکِّلَکَ فِی الْمُدَّۃِ الْمَعْلُوْمَۃِ عَلَی الْمَھْرِالْمَعْلُوْمِ‘‘ اوراس کے بعدمردکاوکیل فوراً بعدکہے: ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ لِمُوَکِّلِیْ ھٰکَذَا‘‘تونکاح صحیح ہوگا۔

نکاح کے شرائط

مسئلہ (۲۳۸۹)نکاح کی چندشرطیں ہیں جوذیل میں درج کی جاتی ہیں :

۱:
) (احتیاط واجب کی بناپر)نکاح کاصیغہ عربی میں پڑھاجائے اوراگرخودمرد اور عورت صیغۂ عربی نہ پڑھ سکتے ہوں توعربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھ سکتے ہیں اور کسی شخص کووکیل بنانالازم نہیں ہے۔البتہ انہیں چاہئے کہ وہ الفاظ کہیں جو ’’زَوَّجْتُ اور قَبِلْتُ‘‘ کامفہوم اداکرسکیں ۔

۲:
)مرداورعورت یاان کے وکیل جو صیغہ پڑھ رہے ہوں وہ ’’قصدانشاء‘‘ رکھتے ہوں یعنی اگرخودمرداورعورت صیغہ پڑھ رہے ہوں توعورت کا’’زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ‘‘ کہنااس نیت سے ہوکہ خودکواس کی بیوی قراردے اور مردکا ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ‘‘ کہنااس نیت سے ہوکہ وہ اس کااپنی بیوی بنناقبول کرے اوراگرمرداورعورت کے وکیل صیغہ پڑھ رہے ہوں تو ’’زَوَّجْتُ وَقَبِلْتُ‘‘کہنے سے ان کی نیت یہ ہوکہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے انہیں وکیل بنایاہے ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں ۔

۳:
)جوشخص صیغہ پڑھ رہاہوضروری ہے کہ وہ عاقل ہواوراگر اپنے لئے پڑھ رہا ہو تو ضروری ہے کہ بالغ بھی ہو بلکہ( احتیاط کی بناء پر) سمجھ دار نابالغ بچے کا دوسرے کےلئے صیغہ جاری کرنا کافی نہیں ہے اور اگر پڑھ دے تو ضروری ہےکہ طلاق دیں یاپھر سے صیغہ پڑھیں ۔

۴:
)اگرعورت اورمردکے وکیل یاان کے سرپرست صیغہ پڑھ رہے ہوں تووہ نکاح کے وقت عورت اورمردکومعین کرلیں مثلاًان کے نام لیں یاان کی طرف اشارہ کریں ۔ لہٰذا جس شخص کی کئی لڑکیاں ہوں اگروہ کسی مردسے کہے: ’’زَوَّجْتُکَ اِحْدٰی بَنَاتِیْ‘‘ یعنی میں نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو تمہاری بیوی بنایااوروہ مردکہے: ’’قَبِلْتُ‘‘ یعنی میں نے قبول کیاتوچونکہ نکاح کرتے وقت لڑکی کومعین نہیں کیاگیااس لئے نکاح باطل ہے۔

۵:
)عورت اورمردازدواج پرراضی ہوں ۔ہاں اگرعورت بظاہرناپسندیدگی سے اجازت دے اورمعلوم ہوکہ دل سے راضی ہے تونکاح صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۰)اگرنکاح میں ایک حرف یا اس سے زیادہ غلط پڑھاجائے جواس کے معنی کو نہ بدلے تو نکاح صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۱)وہ شخص جونکاح کاصیغہ پڑھ رہاہواگر( خواہ اجمالی طورپر) نکاح کے معنی جانتاہواوراس کے معنی کو قصد تحقق یعنی حقیقی شکل دیناچاہتاہوتونکاح صحیح ہے اور یہ لازم نہیں کہ وہ تفصیل کے ساتھ صیغے کے معنی جانتاہومثلاً یہ جانے کہ عربی زبان کے لحاظ سے فعل یا فاعل کون ساہے۔

مسئلہ (۲۳۹۲)اگرکسی عورت کانکاح اس کی اجازت کے بغیرکسی مردسے کردیا جائے اوربعدمیں عورت اورمرداس نکاح کی اجازت دے دیں تونکاح صحیح ہےاور اجازت کےلئے کافی ہے کہ کچھ زبان سے کہے یا کوئی ایساکام کرے جو اس کی رضایت پر دلالت کرسکتا ہو۔

مسئلہ (۲۳۹۳)اگرعورت اورمرددونوں کویاان میں سے کسی ایک کوازدواج پر مجبور کیاجائے اورنکاح پڑھے جانے کے بعدوہ اجازت دے دیں جیسا کہ گزشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا تونکاح صحیح ہے اور بہتریہ ہے کہ دوبارہ نکاح پڑھاجائے۔

مسئلہ (۲۳۹۴)باپ اوردادااپنے نابالغ لڑکے یالڑکی یا دیوانے فرزند کا جودیوانگی کی حالت میں بالغ ہواہونکاح کرسکتے ہیں اورجب وہ بچہ بالغ ہو جائے یادیوانہ عاقل ہوجائے توانہوں نے اس کاجو نکاح کیاہواگراس میں کوئی خرابی ہو تو انہیں اس نکاح کوبرقراررکھنے یاختم کرنے کااختیار ہے اور اگرکوئی خرابی نہ ہواور نابالغ لڑکے یالڑکی میں سے کوئی ایک اپنے اس نکاح کومنسوخ کرے تو (احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہےکہ یا طلاق دیں یا دوبارہ نکاح پڑھیں ۔

مسئلہ (۲۳۹۵)جولڑکی سن بلوغ کوپہنچ چکی ہواوررشیدہ ہویعنی اپنابرابھلاسمجھ سکتی ہو اگروہ شادی کرناچاہے اورکنواری ہو اور اپنے زندگی کے امور کو خود انجام نہ دیتی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے باپ یادادا سے اجازت لےبلکہ اگر وہ خودمختاری سے اپنی زندگی کے کاموں کوانجام دیتی ہو تو( احتیاط واجب کی بناء)پھر بھی اجازت لےالبتہ ماں اور بھائی سے اجازت لینالازم نہیں ۔

مسئلہ (۲۳۹۶)اگر لڑکی کنواری ہولیکن باپ یا دادا کسی بھی مرد کے ساتھ اسے شادی کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوں جوعرفاًوشرعاًاس کےلیے ہمکفو ہو اور وہ پوری طرح سے روک رہے ہوں یاباپ اور دادا بیٹی کے شادی کے معاملے میں کسی طرح شریک ہونے کے لئے راضی نہ ہوں یادیوانگی یا اس جیسی کسی دوسری وجہ سے اجازت دینے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں،یا اگر لڑکی کنواری نہ ہو توان تمام صورتوں میں ان سے اجازت لینالازم نہیں ہے۔ اسی طرح کنواری ہونے کی صورت میں ان کے موجودنہ ہونے یاکسی دوسری وجہ سے اجازت لیناممکن نہ ہواورلڑکی کاشادی کرنابےحدضروری ہوتوباپ اوردادا سے اجازت لینالازم نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۷)اگرباپ یادادااپنے نابالغ لڑکے کی شادی کردیں تو لڑکے کو چاہئے کہ بالغ ہونے کے بعداس عورت کاخرچ دے بلکہ بالغ ہونے سے پہلے بھی جب اس کی عمراتنی ہو جائے کہ وہ اس لڑکی سے لذت اٹھانے کی قابلیت رکھتاہواورلڑکی بھی اس قدرچھوٹی نہ ہوکہ شوہراس سے لذت نہ اٹھاسکے توبیوی کے خرچ کاذمہ دارلڑکاہے اوراس صورت کے علاوہ بقیہ صورتوں میں نفقہ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۸)اگرباپ یادادااپنے نابالغ لڑکے کی شادی کردیں تو اگر لڑکے کے پاس نکاح کے وقت کوئی مال نہ ہوتوباپ یادادا کوچاہئے کہ اس عورت کا مہر دے اور یہی حکم ہے اگرلڑکے کے پاس کوئی مال ہولیکن باپ یادادا نے مہر ادا کرنے کی ضمانت دی ہواور ان دوصورتوں کے علاوہ اگراس کامہرمہرالمثل سے زیادہ نہ ہو یا کسی مصلحت کی بناپراس لڑکی کامہرمہرالمثل سے زیادہ ہوتوباپ یادادابیٹے کے مال سے مہراداکرسکتے ہیں ورنہ بیٹے کے مال سے مہرالمثل سے زیادہ مہر نہیں دے سکتے مگریہ کہ بچہ بالغ ہونے کے بعدان کے اس کام کوقبول کرے۔

وہ صورتیں جن میں مردیاعورت نکاح فسخ کرسکتے ہیں

مسئلہ (۲۳۹۹)اگرنکاح کے بعدمردکوپتاچلے کہ عورت میں نکاح کے وقت مندرجہ ذیل چھ عیوب میں سے کوئی عیب موجودتھاتواس کی وجہ سے نکاح فسخ کرسکتاہے:

۱:
)دیوانگی، اگرچہ کبھی کبھارہوتی ہو۔

۲:
)جذام۔

۳:
)برص۔

۴:
)اندھاپن۔

۵:
)اپاہج ہونا، اگرچہ زمین پرنہ گھسٹتی ہو۔

۶:
)بچہ دانی میں گوشت یاہڈی ہو۔خواہ جماع اورحمل کے لئے مانع ہویانہ ہو اور اگر مردکونکاح کے بعدپتاچلے کہ عورت نکاح کے وقت افضاہوچکی تھی یعنی اس کاپیشاب اور حیض کامخرج یا حیض اورپاخانے کامخرج یا تینوں ایک ہوچکاتھاتواس صورت میں نکاح کوفسخ کرنے میں اشکال ہے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اگرعقدکوفسخ کرناچاہے توطلاق بھی دے۔

مسئلہ (۲۴۰۰)اگرعورت کونکاح کے بعدپتاچلے کہ اس کے شوہرکاآلہ ٔ تناسل نہیں ہے یانکاح کے بعدجماع کرنے سے پہلے یاجماع کرنے کے بعد،اس کاآلہ تناسل کٹ جائے یاایسی بیماری میں مبتلا ہوجائے کہ جماع نہ کرسکتاہوخواہ وہ بیماری نکاح کے بعداورجماع کرنے سے پہلے یاجماع کرنے کے بعدہی کیوں نہ لاحق ہوئی ہو۔ ان تمام صورتوں میں عورت طلاق کے بغیر نکاح کوختم کرسکتی ہے اوراگرعورت کونکاح کے بعد پتاچلے کہ اس کاشوہرنکاح سے پہلے دیوانہ تھایانکاح کے بعد( خواہ جماع سے پہلے یا جماع کے بعد) دیوانہ ہوجائے یااسے (نکاح کے بعد) پتاچلے کہ نکاح کے وقت اس کے کوڑیاں نکال دئے گئے تھے یامسل دیئے گئے تھے یااسے پتاچلے کہ نکاح کے وقت جذام یا برص اندھے پن میں مبتلاتھاتوان تمام صورتوں میں احتیاط واجب یہ ہےکہ عورت نکاح کو نہ توڑے اور اگر یہ کام کیا تو احتیاط واجب ہے کہ اگر دوبارہ ازدواجی زندگی گذارنا چاہے تو دوبارہ نکاح کریں اور جدا ہونا چاہیں تو ضروری ہےکہ طلاق دی جائے۔ لیکن اس صورت میں کہ اس کاشوہر جماع نہ کرسکتاہواورعورت نکاح کوختم کرنا چاہے تواس پرلازم ہے کہ پہلے حاکم شرع یااس کے وکیل سے رجوع کرے اورحاکم شرع اسے ایک سال کی مہلت دے گالہٰذااگراس دوران وہ اس عورت یاکسی دوسری عورت سے جماع نہ کرسکے تواس کے بعدعورت نکاح کوختم کرسکتی ہے۔

مسئلہ (۲۴۰۱)اگرعورت اس بناپرنکاح ختم کردے کہ اس کاشوہرنامردہے تو ضروری ہے کہ شوہراسے آدھامہردے لیکن اگران دوسرے نقائص میں سے جن کاذکر اوپر کیاگیاہے کسی ایک کی بناپرمردیاعورت نکاح ختم کردیں تواگرمردنے عورت کے ساتھ جماع نہ کیاہوتووہ کسی چیز کاذمہ دار نہیں ہے اور اگرجماع کیاہوتوضروری ہے کہ پورا مہردے۔

مسئلہ (۲۴۰۲)اگرمردیاعورت جوکچھ وہ ہیں اس سے زیادہ بڑھاچڑھاکران کی تعریف کی جائے تاکہ وہ شادی کرنے میں دلچسپی لیں ( خواہ یہ تعریف نکاح کے ضمن میں ہو یااس سے پہلے۔اس صورت میں کہ اس تعریف کی بنیادپرنکاح ہواہو) لہٰذااگرنکاح کے بعددوسرے فریق کواس بات کاغلط ہونامعلوم ہوجائے تووہ نکاح کوختم کرسکتاہے اور اس مسئلے کے تفصیلی احکام’’ منہاج الصالحین ‘‘میں بیان ہوئے ہیں۔

وہ عورتیں جن سے نکاح کرناحرام ہے

مسئلہ (۲۴۰۳)ان عورتوں کے ساتھ جوانسان کی محرم ہوں ازدواج حرام ہے مثلاً ماں ، بہن، بیٹی،پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی،ساس۔

مسئلہ (۲۴۰۴)اگرکوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے چاہے اس کے ساتھ جماع نہ بھی کرے تواس عورت کی ماں ،نانی اوردادی اورجتناسلسلہ اورپرچلاجائے سب عورتیں اس مردکی محرم ہوجاتی ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۰۵)اگرکوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اوراس کے ساتھ ہم بستری کرے توپھراس عورت کی لڑکی،نواسی،پوتی اورجتناسلسلہ نیچے چلاجائے سب عورتیں اس مردکی محرم ہوجاتی ہیں خواہ وہ عقدکے وقت موجودہوں یابعدمیں پیداہوں ۔

مسئلہ (۲۴۰۶)اگرکسی مردنے ایک عورت سے نکاح کیاہولیکن ہم بستری نہ کی ہو تو جب تک وہ عورت اس کے نکاح میں رہے( احتیاط واجب کی بناپر) اس وقت تک اس کی لڑکی سے ازدواج نہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۰۷)انسان کی پھوپھی اورخالہ اوراس کے باپ کی پھوپھی اورخالہ اور داداکی پھوپھی اورخالہ باپ کی ماں اورماں کی پھوپھی اورخالہ اورنانی اور نانا کی پھوپھی اورخالہ اورجس قدریہ سلسلہ اوپرچلاجائے سب اس کے محرم ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۰۸)شوہرکاباپ اوردادااورجس قدریہ سلسلہ اوپرچلاجائے اورشوہرکا بیٹا، پوتااورنواساجس قدربھی یہ سلسلہ نیچے چلاجائے اورخواہ وہ نکاح کے وقت دنیامیں موجودہوں یابعدمیں پیداہوں سب اس کی بیوی کے محرم ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۰۹)اگرکوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے توخواہ وہ نکاح دائمی ہویا غیردائمی جب تک وہ عورت اس کی منکوحہ ہے وہ اس کی بہن کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتا۔

مسئلہ (۲۴۱۰)اگرکوئی شخص ترتیب کے مطابق جس کاذکرطلاق کے مسائل میں کیا جائے گااپنی بیوی کوطلاق رجعی دے دے تووہ عدت کے دوران اس کی بہن سے نکاح نہیں کرسکتالیکن طلاق بائن کی مدت کے دوران اس کی بہن سے نکاح کرسکتاہے اور متعہ کی عدت کے دوران احتیاط واجب یہ ہے کہ عورت کی بہن سے نکاح نہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۱۱)انسان اپنی بیوی کی اجازت کے بغیراس کی بھتیجی یابھانجی سے شادی نہیں کرسکتالیکن اگروہ بیوی کی اجازت کے بغیران سے نکاح کرلے اوربعدمیں بیوی اجازت دے دے توپھرکوئی اشکال نہیں ۔

مسئلہ (۲۴۱۲)اگربیوی کوپتاچلے کہ اس کے شوہرنے اس کی بھتیجی یابھانجی سے نکاح کرلیاہے اورخاموش رہے تواگروہ بعدمیں راضی ہوجائے تونکاح صحیح ہے اوراگر رضا مند نہ ہوتوان کانکاح باطل ہے۔

مسئلہ (۲۴۱۳)اگرانسان خالہ یاپھوپھی کی لڑکی سے شادی کرنے سے پہلے (نعوذ باللہ) خالہ یاپھوپھی سے زناکرے توپھروہ اس کی لڑکی سے( احتیاط واجب کی بناپر)شادی نہیں کر سکتا۔

مسئلہ (۲۴۱۴)اگرکوئی شخص اپنی پھوپھی کی لڑکی یاخالہ کی لڑکی سے شادی کرے اور اس سے ہم بستری کرنے کے بعد یا پہلے اس کی ماں سے زناکرے تویہ بات ان کی جدائی کا موجب نہیں بنتی۔

مسئلہ (۲۴۱۵)اگرکوئی شخص اپنی پھوپھی یاخالہ کے علاوہ کسی اور عورت سے زنا کرے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی نہ کرے ۔

مسئلہ (۲۴۱۶)مسلمان عورت کافرمردسے نکاح نہیں کرسکتی چاہے دائمی ہو یا غیر دائمی چاہے کتابی ہو یا غیر کتابی۔مسلمان مردبھی اہل کتاب کے علاوہ کافرعورتوں سے نکاح نہیں کرسکتا۔لیکن یہودی اورعیسائی عورتوں کے مانند اہل کتاب عورتوں سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور(احتیاط لازم کی بناپر)ان سے دائمی عقدنہ کیاجائے اور( احتیاط واجب کی بناء پر) مجوسی عورتوں سے نکاح موقت(متعہ) بھی ایک مسلمان نہ کرے البتہ وہ مردجس کی بیوی مسلمان ہے وہ اس کی اجازت کےبغیر ان سب سے نکاح نہ کرے بلکہ احتیاط واجب کی بناء پر اس کی اجازت سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہے اوربعض فرقے مثلاً ناصبی جو اپنے آپ کومسلمان سمجھتے ہیں کفارکے حکم میں ہیں اور مسلمان مرداورعورتیں ان کے ساتھ دائمی یاغیردائمی نکاح نہیں کرسکتےیہی حکم مرتد کا بھی ہے۔

مسئلہ (۲۴۱۷)اگرکوئی شخص ایک ایسی عورت سے زناکرے جورجعی طلاق کی عدت گزاررہی ہوتو (احتیاط واجب کی بناپر)وہ عورت اس پرحرام ہوجاتی ہے اوراگرایسی عورت کے ساتھ زناکرے جومتعہ یا طلاق بائن یاوفات یا وطی شبہ کی عدت گزاررہی ہوتوبعدمیں اس کے ساتھ نکاح کرسکتاہے اوررجعی طلاق اوربائن طلاق اورمتعہ کی عدت اوروفات کی عدت اور وطی شبہ کی عدت کے معنی طلاق کے احکام میں بتائے جائیں گے۔

مسئلہ (۲۴۱۸)اگرکوئی شخص کسی ایسی عورت سے زناکرے جو بے شوہر ہومگر عدت میں نہ ہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)توبہ کرنے سے پہلے اس سے شادی نہیں کرسکتا۔لیکن اگرزانی کے علاوہ کوئی دوسراشخص (اس عورت کے) توبہ کرنے سے پہلے اس کے ساتھ شادی کرنا چاہے توکوئی اشکال نہیں ہے۔ مگراس صورت میں کہ وہ عورت زناکار مشہورہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)اس (عورت) کے توبہ کرنے سے پہلے اس کے ساتھ شادی کرناجائز نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی مردزناکارمشہور ہوتوتوبہ کرنے سے پہلے اس کے ساتھ شادی کرناجائز نہیں ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص زناکارعورت سے جس سے خوداس نے یاکسی دوسرے نے زناکیاہوشادی کرناچاہے توحیض آنے تک انتظارکرے اورحیض آنے کے بعداس کے ساتھ شادی کرلے۔

مسئلہ (۲۴۱۹)اگرکوئی شخص ایک ایسی عورت سے نکاح کرے جودوسرے کی عدت میں ہوتواگرمرداور عورت دونوں یاان میں سے کوئی ایک جانتاہوکہ عورت کی عدت ختم نہیں ہوئی اوریہ بھی جانتے ہوں کہ عدت کے دوران عورت سے نکاح کرناحرام ہے تو اگرچہ مردنے نکاح کے بعدعورت سے جماع نہ بھی کیاہووہ عورت ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوجائے گی اور اگر دونوں عدت کے بارے میں جاہل ہوں یا دوران عدت ازدواج کی حرمت سے ناواقف ہوں تو نکاح باطل ہے لہٰذا اگر ہمبستری بھی کی ہوتو ہمیشہ کےلئے حرام ہوجائیں گے ورنہ حرام نہیں ہے اور عدت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ عقد کرسکتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۲۰)اگرکوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ عورت شوہردارہے اور اس سے شادی کرے توضروری ہے کہ اس عورت سے جداہو جائے اوربعدمیں بھی اس سے نکاح نہیں کرناچاہئے اور اگراس شخص کویہ علم نہ ہوکہ عورت شوہردارہے لیکن شادی کے بعداس سے ہم بستری کی ہوتب بھی (احتیاط واجب کی بناپر)یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۲۴۲۱)اگرشوہردارعورت زناکرے تو(احتیاط واجب کی بناپر) وہ زانی پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے۔لیکن شوہرپرحرام نہیں ہوتی اوراگرتوبہ واستغفارنہ کرے اور اپنے عمل پرباقی رہے (یعنی زناکاری ترک نہ کرے) تو بہتریہ ہے کہ اس کاشوہراسے طلاق دے دے لیکن شوہرکوچاہئے کہ اس کامہربھی دے۔

مسئلہ (۲۴۲۲)جس عورت کوطلاق دےدیا گیا ہواورجوعورت متعہ میں رہی ہواوراس کے شوہرنے متعہ کی مدت بخش دی ہویامتعہ کی مدت ختم ہوگئی ہواگروہ کچھ عرصے کے بعد دوسراشوہرکرے اورپھراسے شک ہوکہ دوسرے شوہرسے نکاح کے وقت پہلے شوہر کی عدت ختم ہوئی تھی یانہیں تووہ اپنے شک کی پروانہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۲۳)اغلام کروانے والے لڑکے کی ماں ،بہن اوربیٹی اغلام کرنے والے پر (جب کہ (اغلام کرنے والا) بالغ ہو) حرام ہوجاتے ہیں اگر چہ ختنہ گاہ سے کم داخل ہوا ہو اوراگراغلام کروانے والا مرد ہویااغلام کرنے والانابالغ ہوتب بھی (احتیاط لازم کی بناپر)یہی حکم ہے۔ لیکن اگر اسے گمان ہوکہ دخول ہواتھایاشک کرے کہ دخول ہوا تھا یا نہیں توپھروہ حرام نہیں ہوں گے اور اسی طرح اغلام کرنے والے کی ماں بہن اور بیٹی اغلام کروانےوالے پر حرام نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۲۴)اگرکوئی شخص کسی عورت کے ساتھ شادی کرے اور اس کے بعد اس کے باپ بھائی یا بیٹے کے ساتھ اغلام کرے تو( احتیاط واجب کی بنا ء پر) وہ عورت اس پر حرام ہوجاتی ہے۔

مسئلہ (۲۴۲۵)اگرکوئی شخص احرام کی حالت میں جواعمال حج میں سے ایک عمل ہے کسی عورت سے شادی کرے اگرچہ وہ عورت احرام میں نہ ہو تواس کانکاح باطل ہے اوراگراسے علم تھاکہ کسی عورت سے احرام کی حالت میں نکاح کرنااس پرحرام ہے توبعدمیں زندگی بھر وہ اس عورت سے شادی نہیں کر سکتا۔

مسئلہ (۲۴۲۶)جوعورت احرام کی حالت میں ہواگروہ ایک ایسے مردسے شادی کرے جواحرام کی حالت میں نہ ہوتواس کانکاح باطل ہے اوراگرعورت کومعلوم تھاکہ احرام کی حالت میں شادی کرناحرام ہے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ بعدمیں زندگی بھر اس مردسے شادی نہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۲۷)اگرمرد یا عورت طواف النساء جوحج اور عمرۂ مفردہ کے اعمال میں سے ایک عمل ہے بجانہ لائے توان دونوں کےلئے جنسی لذت کا حاصل کرنا اس وقت تک حلال نہ ہوگا جب تک طواف النساء انجام نہ دیں لیکن اگر شادی کریں اور اگر حلق اور تقصیر کے ذریعہ احرام سے خارج ہوئے ہوں تو ان کی شادی صحیح ہے اگر چہ طواف النساء انجام نہ دیاہو۔

مسئلہ (۲۴۲۸)اگرکوئی شخص نابالغ لڑکی سے نکاح کرے تواس لڑکی کی عمرنوسال ہونے سے پہلے اس کے ساتھ جماع کرناحرام ہے۔لیکن اگرجماع کرے تو لڑکی کے بالغ ہونے کے بعداس سے جماع کرناحرام نہیں ہے خواہ اس نے افضاء ہی کردیاہو۔ افضاء کے معنی مسئلہ ( ۲۳۹۹) میں بتائے جاچکے ہیں ۔ لیکن افضاء کی صورت میں اس کی دیت دے جو ایک انسان کے قتل کے برابر ہے اور ہمیشہ اس کی زندگی کے اخراجات کو دے حتی طلاق کے بعد بھی دے بلکہ( احتیاط واجب کی بناء پر) اگر وہ لڑکی کسی دوسرے سے شادی بھی کرلے تب بھی اخراجات دے۔

مسئلہ (۲۴۲۹)جس عورت کوتین مرتبہ طلاق دی جائے جن کے درمیان دو دفعہ رجوع یا عقد ہوا ہو وہ شوہرپرحرام ہوجاتی ہے۔ ہاں اگران شرائط کے ساتھ جن کاذکرطلاق کے احکام میں کیاجائے گاوہ عورت دوسرے مردسے شادی کرے تودوسرے شوہرکی موت یااس سے طلاق ہوجانے کے بعد اورعدت گزرجانے کے بعداس کاپہلاشوہردوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرسکتاہے۔

دائمی عقدکے احکام

مسئلہ (۲۴۳۰)جس عورت کادائمی نکاح ہوجائے اس کے لئے حرام ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیرگھرسے باہرنکلے خواہ اس کانکلناشوہرکے حق کے منافی نہ بھی ہو۔سوائے اس صورت میں کہ جب کوئی ضرورت پیش آئے یا اس کا گھر میں رہناتکلیف اور حرج کا سبب ہو یا اس کی شان کے مطابق گھر نہ ہونیزاس کے لئے ضروری ہے کہ جب بھی شوہرجنسی لذتیں حاصل کرناچاہےجو اس کا حق ہے تواس کی خواہش پوری کرے اور شرعی عذرکے بغیرشوہرکوہم بستری سے نہ روکے اوراس کی غذا،لباس رہائش اورزندگی کی باقی ضروریات کاانتظام شوہر پرواجب ہے اوراگروہ یہ چیزیں مہیانہ کرے توخواہ ان کے مہیاکرنے پر قدرت رکھتا ہویانہ رکھتاہووہ بیوی کامقروض ہےاسی طرح عورت کے حقوق میں سے ہے کہ مرداسے اذیت نہ دے اور بغیر کسی شرعی عذر کے اس کے ساتھ سختی اور بے رحمی نہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۳۱)اگرکوئی عورت ہم بستری اورجنسی لذتوں کے سلسلے میں شوہرکاساتھ دے کراس کی خواہش پوری نہ کرے توروٹی،کپڑے اورمکان کاوہ ذمہ دارنہیں ہے اگرچہ وہ شوہر کے پاس ہی رہے اوراگروہ کبھی کبھاراپنی ان ذمہ داریوں کوپورانہ کرے تو(احتیاط واجب کی بناء پر) اس کا خرچ ساقط نہیں ہوتا لیکن مرد کی خواہش پوری نہ کرنے کی بناء پر کسی بھی صورت میں مہرساقط نہیں ہوتا۔

مسئلہ (۲۴۳۲)مردکویہ حق نہیں کہ بیوی کوگھریلوخدمت پرمجبورکرے۔

مسئلہ (۲۴۳۳)بیوی کے سفرکے اخراجات وطن میں رہنے کے اخراجات سے زیادہ ہوں تواگراس نے سفرشوہرکی اجازت سے کیاہوتوشوہرکی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اخراجات کوپوراکرے۔لیکن اگروہ سفر گاڑی یاجہازوغیرہ کے ذریعے ہوتوکرائے اور سفر کے دوسرے ضروری اخراجات کی وہ خودذمہ دار ہے۔ لیکن اگراس کاشوہراسے سفر میں ساتھ لے جاناچاہتاہوتواس کے لئے ضروری ہے کہ بیوی کے سفری اخراجات برداشت کرے اور اسی طرح اگر سفر کرنا زندگی کی ضروریات میں سے ہے جیسے علاج کی غرض سے سفر کرنا۔

مسئلہ (۲۴۳۴)جس عورت کاخرچ اس کے شوہرکے ذمہ ہواورشوہراسے خرچ نہ دے تووہ اپناخرچ شوہرکی اجازت کے بغیراس کے مال سے لے سکتی ہے اوراگرنہ لے سکتی ہواورمجبورہوکہ اپنی معاش کاخودبندوبست کرے اورشکایت کرنے کے لئے حاکم شرع تک اس کی رسائی نہ ہو توجس وقت وہ اپنی معاش کابندوبست کرنے میں مشغول ہواس وقت شوہر کی اطاعت اس پرواجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۳۵)اگرکسی مردکی مثلاً دوبیویاں دائمی ہوں اوروہ ان میں سے ایک کے پاس ایک رات رہے تواس پر واجب ہے کہ چارراتوں میں سے کوئی ایک رات دوسری کے پاس بھی گزارے اوراس صورت کے علاوہ عورت کے پاس رہناواجب نہیں ہے۔ ہاں یہ لازم ہے کہ اس کے پاس رہنابالکل ہی ترک نہ کردے اوراولیٰ اوراحوط یہ ہے کہ ہر چارراتوں میں سے ایک رات مرداپنی دائمی منکوحہ بیوی کے پاس رہے۔

مسئلہ (۲۴۳۶)شوہراپنی جوان بیوی سے چارمہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک نہیں کرسکتامگریہ کہ ہم بستری اس کے لئے نقصان دہ یابہت زیادہ تکلیف کا باعث ہویااس کی بیوی خودچارمہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک کرنے پر راضی ہویاشادی کرتے وقت نکاح کے ضمن میں چارمہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک کرنے کی شرط رکھی گئی ہواوراس حکم میں (احتیاط واجب کی بناپر)شوہرکے موجود ہونے یامسافر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے پس (احتیاط واجب کی بناء پر) جائز نہیں ہےکہ بیوی کی اجازت کے بغیر اور بغیر عذر کے چار مہینہ سے زیادہ غیر ضروری سفر نہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۳۷)اگردائمی نکاح میں مہرمعین نہ کیاجائے تونکاح صحیح ہے اوراگرمرد عورت کے ساتھ جماع کرے تواسے چاہئے کہ اس کامہراسی جیسی عورتوں کے مہرکے مطابق دے البتہ اگرمتعہ میں مہرمعین نہ کیاجائے تومتعہ باطل ہوجاتاہے اگر چہ ایسا حکم سے جاہل ہونے یا غفلت یا فراموشی کی بناء پر ہو۔

مسئلہ (۲۴۳۸)اگردائمی نکاح پڑھتے وقت مہردینے کے لئے مدت معین نہ کی جائے توعورت مہرلینے سے پہلے شوہرکوجماع کرنے سے روک سکتی ہےاس سے قطع نظر کہ مردمہردینے پرقادرہویانہ ہولیکن اگروہ مہرلینے سے پہلے جماع پرراضی ہواورشوہر اس سے جماع کرے توبعدمیں وہ شرعی عذرکے بغیرشوہرکوجماع کرنے سے نہیں روک سکتی۔

متعہ (معینہ مدت کانکاح)

مسئلہ (۲۴۳۹)عورت کے ساتھ متعہ کرنااگرچہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو تب بھی صحیح ہے لیکن عورت یہ شرط نہیں رکھ سکتی کہ مرد کوئی اس سے جنسی لذت حاصل نہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۴۰)احتیاط واجب یہ ہے کہ شوہرنے جس عورت سے متعہ کیاہواس کے ساتھ چارمہینے سے زیادہ جماع ترک نہ کرے اگر عورت جوان ہو۔

مسئلہ (۲۴۴۱)جس عورت کے ساتھ متعہ کیاجارہاہواگروہ نکاح میں یہ شرط عائد کرے کہ شوہر اس سے جماع نہ کرے تونکاح اوراس کی عائدکردہ شرط صحیح ہے اورشوہر اس سے فقط دوسری لذتیں حاصل کرسکتاہے لیکن اگروہ بعدمیں جماع کے لئے راضی ہو جائے توشوہراس سے جماع کرسکتاہے اور دائمی عقد میں بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۲۴۴۲)جس عورت کے ساتھ متعہ کیاگیاہوخواہ وہ حاملہ ہوجائے تب بھی خرچ کاحق نہیں رکھتی۔

مسئلہ (۲۴۴۳)جس عورت کے ساتھ متعہ کیاگیاہووہ شب خوابی کاحق نہیں رکھتی اور شوہرسے میراث بھی نہیں پاتی اورشوہربھی اس سے میراث نہیں پاتا۔لیکن اگر( ان میں سے کسی ایک فریق نے یادونوں نے) میراث پانے کی شرط رکھی ہوتواس شرط کاصحیح ہونا محل اشکال ہے لیکن احتیاط کاخیال رکھے۔

مسئلہ (۲۴۴۴)جس عورت سے متعہ کیاگیاہواگرچہ اسے یہ معلوم نہ ہوکہ وہ خرچ اورشب خوابی کاحق نہیں رکھتی اس کانکاح صحیح ہے اوراس وجہ سے کہ وہ ان امورسے ناواقف تھی اس کا شوہرپرکوئی حق نہیں بنتا۔

مسئلہ (۲۴۴۵)جس عورت سے متعہ کیاگیاہو وہ شوہر کی اجازت کے بغیرگھر سے باہرجاسکتی ہے لیکن اگراس کے باہر جانے کی وجہ سے اگر شوہر کی حق تلفی ہوتواس کاباہرجاناحرام ہے اور اس صورت میں جب کہ اس کے باہرجانے سے شوہرکی حق تلفی نہ ہوتی ہوتب بھی( احتیاط مستحب کی بناپر)شوہرکی اجازت کے بغیرگھرسے باہرنہ جائے۔

مسئلہ (۲۴۴۶)اگرکوئی عورت کسی مردکووکیل بنائے کہ معین مدت کے لئے اور معین رقم کے عوض اس کاخوداپنے ساتھ صیغہ پڑھے اوروہ شخص اس کادائمی نکاح اپنے ساتھ پڑھ لے یامدت مقررکئے بغیر یارقم کاتعین کئے بغیرمتعہ کاصیغہ پڑھ دے توجس وقت عورت کوان امورکاپتاچلے اگروہ اجازت دے دے تونکاح صحیح ہے ورنہ باطل ہے۔

مسئلہ (۲۴۴۷)اگرمحرم ہونے کے لئے( مثلاً) باپ یادادااپنی نابالغ لڑکی یا لڑکے کانکاح معینہ مدت کے لئے کسی سے پڑھیں تواس صورت میں اگراس نکاح کی وجہ سے کوئی فسادنہ ہوتونکاح صحیح ہے لیکن اگرنابالغ لڑکاشادی کی اس پوری مدت میں جنسی لذت لینے کی بالکل صلاحیت نہ رکھتاہویالڑکی ایسی ہوکہ وہ اس سے بالکل لذت نہ لے سکتاہوتونکاح کاصحیح ہونامحل اشکال ہے۔

مسئلہ (۲۴۴۸)اگرباپ یادادااپنے بچہ کاجودوسری جگہ ہواوریہ معلوم نہ ہوکہ وہ زندہ بھی ہے یانہیں محرم بننے کی خاطر کسی عورت سے نکاح کردیں اورزوجیت کی مدت اتنی ہوکہ جس سے نکاح کیاگیاہواس سے استمتاع ہوسکے توظاہری طورپرمحرم بننے کامقصد حاصل ہوجائے گااوراگربعدمیں معلوم ہوکہ نکاح کے وقت وہ لڑکی زندہ نہ تھی تو نکاح باطل ہے اوروہ لوگ جونکاح کی وجہ سے بظاہرمحرم بن گئے تھے نامحرم ہیں۔

مسئلہ (۲۴۴۹)جس عورت کے ساتھ متعہ کیاگیاہواگرمرداس کے نکاح میں معین کی ہوئی مدت بخش دے تواگراس نے اس کے ساتھ ہم بستری کی ہوتومردکوچاہئے کہ تمام چیزیں جن کاوعدہ کیاگیاتھااسے دے دے اور اگرہم بستری نہ کی ہوتوآدھامہردینا واجب ہے ۔

مسئلہ (۲۴۵۰)مردیہ کرسکتاہے کہ جس عورت کے ساتھ اس نے پہلے متعہ کیاہو اور ابھی اس کی عدت ختم نہ ہوئی ہواس سے دائمی عقد کرلے یادوبارہ متعہ کرلے لیکن اگر عقد متعہ کی مدت ابھی پوری نہ ہوئی ہو اور عقد دائم کرے تو عقد باطل ہے مگر یہ کہ بقیہ مدت کو ہبہ کرنے کے بعد عقد کرے۔

نگاہ ڈالنے کے احکام

مسئلہ (۲۴۵۱)مرد کے لئے نامحرم کاجسم دیکھنا اوراسی طرح اس کے بالوں کو دیکھنا خواہ لذت کے ارادے سے ہویااس کے بغیر حرام میں مبتلا ہونے کاخوف ہویانہ ہو حرام ہے اور اس کے چہرے پرنظر ڈالنااورہاتھوں کوکہنیوں تک دیکھنااگرلذت کے ارادے سے ہویاحرام میں مبتلا ہونے کاخوف ہوتوحرام ہے۔ بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ لذت کے ارادے کے بغیر اورحرام میں مبتلا ہونے کاخوف نہ ہوتب بھی نہ دیکھے۔اسی طرح عورت کے لئے نامحرم مرد کے جسم پرنظر ڈالناحرام ہے۔بلکہ (احتیاط واجب کی بناء پر) لذت کے بغیر اور حرام میں مبتلا ہونے کے خوف کے بغیر بھی مرد کے جسم کے ان حصوں مثلاً:سر،دونوں ہاتھوں اوردونوں پنڈلیوں پرجنہیں عرفاً چھپاناضروری نہیں ہے لذت کے ارادے کے بغیر نظر ڈالے اورحرام میں مبتلا ہونے کاخوف نہ ہوتوکوئی اشکال نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۵۲)وہ بے پردہ عورتیں جنہیں اگرکوئی پردہ کرنے کے لئے کہے تو اس کو اہمیت نہ دیتی ہوں ،ان کے بدن کی طرف دیکھنے میں اگرلذت کاقصد اور حرام میں مبتلا ہونے کاخوف نہ ہوتوکوئی اشکال نہیں اوراس حکم میں کافر اورغیر کافر عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ،چہرے اورجسم کے دیگرحصے جنہیں چھپانے کی وہ عادی نہیں کوئی فرق نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۵۳)عورت کوچاہئے کہ(وہ ہاتھ اور چہرے کے علاوہ)سر کے بال اور اپنا بدن نامحرم مردسے چھپائے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اپنابدن اورسر کے بال اس لڑکے سے بھی چھپائے جوابھی بالغ تونہ ہواہولیکن اتناسمجھ دارہوکہ اچھے اور برے کو سمجھتا ہو اور احتمال ہوکہ عورت کے بدن پراس کی نظرپڑنے سے اس کی جنسی خواہش بیدار ہوجائے گی۔لیکن عورت نامحرم مرد کے سامنے چہرہ اورکلائیوں تک ہاتھ کھلے رکھ سکتی ہے لیکن اس صورت میں کہ حرام میں مبتلا ہونے کاخوف ہویاکسی مرد کوہاتھ اورچہرہ دکھاناحرام میں مبتلا کرنے کے ارادے سے ہوتوان دونوں صورتوں میں ان کا کھلارکھناجائز نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۵۴)بالغ مسلمان کی شرم گاہ دیکھناحرام ہے۔اگرچہ ایساکرناشیشے کے پیچھے سے یاآئینے میں یاصاف شفاف پانی وغیرہ میں ہی کیوں نہ ہو اور( احتیاط لازم کی بنا پر) یہی حکم ہے کافر اوراس بچے کی شرم گاہ کی طرف دیکھنے کا جواچھے برے کوسمجھتاہو،البتہ میاں بیوی ایک دوسرے کاپورابدن دیکھ سکتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۵۵)جومرداورعورت آپس میں محرم ہوں اگروہ لذت کی نیت نہ رکھتے ہوں توشرم گاہ کے علاوہ ایک دوسرے کاپورابدن دیکھ سکتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۵۶)ایک مرد کودوسرے مردکابدن لذت کی نیت سے نہیں دیکھناچاہئے اور ایک عورت کےلئے بھی دوسری عورت کے بدن کولذت کی نیت سے دیکھناحرام ہے اور یہی حکم ہے دونوں صورتوں میں اگر حرام میں مبتلاہونے کاخوف ہو۔

مسئلہ (۲۴۵۷)اگرکوئی مردکسی نامحرم عورت کوپہچانتاہواگروہ فاحشہ عورتوں میں سے نہ ہو تو(احتیاط واجب کی بناپر) اسے اس کی تصویر نہیں دیکھنی چاہئے بجز چہرے اور ہاتھوں کے کہ انہیں دیکھنا بغیر لذت کے ہو اور حرام میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو تو جائز ہے۔

مسئلہ (۲۴۵۸)اگرایک عورت کسی دوسری عورت کایااپنے شوہر کے علاوہ کسی مرد کا انیما کرناچاہے یااس کی شرم گاہ کودھوکرپاک کرناچاہے توضروری ہے کہ اپنے ہاتھ پرکوئی چیز لپیٹ لے تاکہ اس کاہاتھ اس (عورت یا مرد) کی شرم گاہ پر نہ لگے اوراگر ایک مرد کسی دوسرے مردیااپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کاانیما کرنا چاہے یااس کی شرم گاہ کو دھوکرپاک کرناچاہے تواس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۲۴۵۹)اگرعورت نامحرم مرد سے اپنی کسی ایسی بیماری کاعلاج کرانے پرمجبور ہوجس کاعلاج وہ بہترطورپرکرسکتاہوتووہ عورت اس نامحرم مرد سے اپناعلاج کراسکتی ہے۔ چنانچہ وہ مرد علاج کے سلسلے میں اس کودیکھنے یااس کے بدن کوہاتھ لگانے پرمجبور ہوتو ایساکرنے میں کوئی اشکال نہیں لیکن اگروہ محض دیکھ کرعلاج کرسکتاہو توضروری ہے اس عورت کے بدن کوہاتھ نہ لگائے اوراگرصرف ہاتھ لگانے سے علاج کرسکتا ہو تو پھرضروری ہے کہ اس عورت پرنگاہ نہ ڈالے۔

مسئلہ (۲۴۶۰)اگرانسان کسی شخص کاعلاج کرنے کے سلسلے میں اس کی شرم گاہ پر نگاہ ڈالنے پرمجبور ہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)اسے چاہئے کہ آئینہ سامنے رکھے اوراس میں دیکھے لیکن اگرشرم گاہ پرنگاہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتوایساکرنے میں کوئی اشکال نہیں اوراگرشرم گاہ پرنگاہ ڈالنے کی مدت آئینے میں دیکھنے کی مدت سے کم ہوتب بھی یہی حکم ہے۔

شادی بیاہ کے مختلف مسائل

مسئلہ (۲۴۶۱)جوشخص شادی نہ کرنے کی وجہ سے حرام ’’فعل‘‘ میں مبتلا ہوتاہو اس پرواجب ہے کہ شادی کرے۔

مسئلہ (۲۴۶۲)اگرشوہر نکاح میں مثلاً یہ شرط عائد کرے کہ عورت کنواری ہو اور نکاح کے بعدمعلوم ہوکہ وہ کنواری نہیں توشوہرنکاح کوفسخ کرسکتاہے البتہ اگر فسخ نہ کرے یا شرط نہ کیا ہو لیکن باکرہ ہونے کے عقیدہ سے شادی کیا ہوتو کنواری ہونے اورکنواری نہ ہونے کے مابین مقررکردہ مہر میں جوفرق ہووہ لے سکتا ہے مثلاً اگر اس کا مہر( سو)دینار ہو اور اس کے جیسی عورت کا مہر اگر باکرہ ہوتی تو (اسّی) دینار اور باکرہ نہ ہوتی تو (ساٹھ) دینا ر ہوتا تو ان دونوں میں ایک چوتھائی یعنی( پچیس) دینار کا فرق ہے جو (سو) دینار سےکم ہوجائے گی۔

مسئلہ (۲۴۶۳)نامحرم مرداورعورت کاکسی ایسی جگہ ساتھ ہوناجہاں اورکوئی نہ ہو جب کہ اس صورت میں بہکنے کااندیشہ بھی ہوحرام ہے چاہے وہ جگہ ایسی ہوجہاں کوئی اور بھی آسکتاہو،البتہ اگربہکنے کااندیشہ نہ ہوتوکوئی اشکال نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۶۴)اگرکوئی مردعورت کامہرنکاح میں معین کردے اوراس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ مہر نہیں دے گاتواس سے نکاح نہیں ٹوٹتابلکہ صحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ مہر ادا کرے۔

مسئلہ (۲۴۶۵)جومسلمان اسلام سے خارج ہوجائے اورکفر اختیارکرے تواسے ’’مرتد‘‘ کہتے ہیں اور مرتدکی دوقسمیں ہیں : (۱) مرتدفطری (۲)مرتدملی۔ مرتدفطری وہ شخص ہے جس کی پیدائش کے وقت اس کے ماں باپ دونوں یاان میں سے کوئی ایک مسلمان ہواوروہ خودبھی اچھے برے کوپہچاننے کے بعد مسلمان ہواہولیکن بعد میں کافرہو جائے اورمرتدملی اس کے برعکس ہے (یعنی وہ شخص ہے جس کی پیدائش کے وقت ماں باپ دونوں یاان میں سے ایک بھی مسلمان نہ ہو)۔

مسئلہ (۲۴۶۶)اگرعورت شادی کے بعدمرتدہوجائے چاہے مرتد ملی یا فطری ہوجائے تواس کانکاح ٹوٹ جاتاہے اوراگراس کے شوہر نے اس کے ساتھ جماع نہ کیاہوتواس کے لئے عدت نہیں ہے اور اگر جماع کے بعدمرتد ہوجائے لیکن یائسہ ہوچکی ہویابہت چھوٹی ہوتب بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگراس کی عمرحیض آنے والی عورتوں کے برابر ہوتواسے چاہئے کہ اس دستور کے مطابق جس کاذکرطلاق کے احکام میں کیاجائے گاعدت گزارے اور اگرعدت کے دوران مسلمان ہوجائے تواس کانکاح باقی رہتاہےاور بہتر یہ ہےکہ اگر دونوں ساتھ میں رہنا چاہتے ہیں تو دوبارہ عقد کریں اور اگر الگ ہونا چاہتےہیں تو طلاق کا صیغہ پڑھ لیں اوریائسہ اس عورت کوکہتے ہیں جس کی عمرپچاس سال ہوگئی ہواورسن رسیدہ ہونے کی وجہ سے اسے حیض نہ آتاہواوردوبارہ آنے کی امیدبھی نہ ہو۔

مسئلہ (۲۴۶۷)اگرکوئی مردشادی کے بعد مرتدفطری ہوجائے تواس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہےاور اگر جماع کیا ہو اور یائسہ اور صغیرہ نہ ہو تو وفات کی عدت کے برابرجس کو احکام طلاق میں بتایا گیا ہے عدت رکھے بلکہ( احتیاط واجب کی بناء پر) اگر جماع نہ کیا ہو یا یائسہ اور صغیرہ ہوتب بھی عدۂ وفات رکھے اور اگر عدت کے دوران شوہر توبہ کرلے تو (احتیاط واجب کی بناء پر) اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو دوبارہ عقد کرلیں اور اگر الگ رہنا چاہتے ہیں تو طلاق کا صیغہ پڑھ لیں ۔

مسئلہ (۲۴۶۸)اگرکوئی مردشادی کے بعدمرتدملی ہوجائے تواس کانکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذااگراس نے اپنی بیوی کے ساتھ جماع کیاہویاوہ عورت یائسہ یابہت چھوٹی ہوتواس کے لئے عدت نہیں ہے اوراگروہ مرد جماع کے بعدمرتدہواہواوراس کی بیوی ان عورتوں کی ہم سن ہوجنہیں حیض آتاہے توضروری ہے کہ وہ عورت طلاق کی عدت کے برابر جس کاذکرطلاق کے احکام میں آئے گاعدت رکھے اگراس کی عدت ختم ہونے سے پہلے اس کاشوہرمسلمان ہوجائے تواس کانکاح قائم رہتاہے۔

مسئلہ (۲۴۶۹)اگرعورت عقدمیں مردپرشرط عائدکرے کہ اسے (ایک معین) شہر سے باہرنہ لے جائے اورمردبھی اس شرط کوقبول کرلے توضروری ہے کہ اس عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر اس شہر سے باہر نہ لے جائے۔

مسئلہ (۲۴۷۰)اگرکسی عورت کی پہلے شوہرسے لڑکی ہوتوبعدمیں اس کادوسرا شوہر اس لڑکی کانکاح اپنے اس لڑکے سے کرسکتاہے جواس بیوی سے نہ ہونیزاگرکسی لڑکی کا نکاح اپنے بیٹے سے کرے توبعدمیں اس لڑکی کی ماں سے خودبھی نکاح کرسکتاہے۔

مسئلہ (۲۴۷۱)اگرکوئی عورت زناسے حاملہ ہوجائے توبچے کوگرانااس کے لئے جائز نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اس کا باقی رہنا عورت کے لئے ناقابل تحمل ضرر رکھتا ہو یا بہت ہی مشقت کا حامل ہو تو اس صورت میں جنین میں جان پڑنے سے پہلے بچے کو گرانا جائز ہے لیکن اس کی دیت دینی ہوگی،لیکن جنین میں جان پڑنے کے بعد بچے کو گرانا جائز نہیں ہے حتیٰ(احتیاط واجب کی بنا پر)اس صورت میں بھی کہ جب اس کا عورت کے لئے باقی رہنا مشقت یا ناقابل تحمل ضرر رکھتا ہو۔

مسئلہ (۲۴۷۲)اگرکوئی مردکسی ایسی عورت سے زناکرے جوشوہردارنہ ہواورکسی دوسرے کی عدت میں بھی نہ ہوچنانچہ بعدمیں اس عورت سے شادی کرلے اور کوئی بچہ پیدا ہوجائے تواس صورت میں کہ جب وہ یہ نہ جانتا ہوکہ بچہ حلال نطفے سے ہے یا حرام نطفے سے تووہ بچہ حلال زادہ ہے۔

مسئلہ (۲۴۷۳)اگرکسی مردکویہ معلوم نہ ہوکہ ایک عورت عدت میں ہے اور وہ اس سے نکاح کرے تو اگرعورت کوبھی اس بارے میں علم نہ ہواوران کے ہاں بچہ پیداہوتو وہ حلال زادہ ہوگااورشرعاً ان دونوں کابچہ ہوگالیکن اگرعورت کوعلم تھاکہ وہ عدت میں ہے اور عدت کے دوران نکاح کرناحرام ہے توشرعاًوہ بچہ باپ کاہوگااورمذکورہ دونوں صورتوں میں ان دونوں کانکاح باطل ہے اور(جیساکہ بیان ہوچکاہے )وہ دونوں ایک دوسرے پر ہمیشہ کےلئے حرام ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۷۴)اگرکوئی عورت یہ کہے کہ میں یائسہ ہوں تواس کی یہ بات قبول نہیں کرنی چاہئے لیکن اگرکہے کہ میں شوہردارنہیں ہوں تواس کی بات مان لیناچاہئے۔ لیکن اگروہ غلط بیانی میں مشہورہوتواس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بارے میں تحقیق کی جائے۔

مسئلہ (۲۴۷۵)اگرکوئی شخص کسی ایسی عورت سے شادی کرے جس نے کہاہوکہ میرا شوہرنہیں ہے اور بعدمیں کوئی اورشخص کہے کہ وہ عورت اس کی بیوی ہے توجب تک شرعاً یہ بات ثابت نہ ہوجائے کہ وہ سچ کہہ رہاہے اس کی بات کوقبول نہیں کرناچاہئے۔

مسئلہ (۲۴۷۶)جب تک لڑکایالڑکی دوسال کے نہ ہوجائیں باپ،بچوں کوان کی ماں سے جدانہیں کرسکتاکیونکہ بچہ کی دیکھ بھال کا حق ماں باپ کامشترکہ حق ہےاوراحوط اوراولیٰ یہ ہے کہ بچے کوسات سال تک اس کی ماں سے جدانہ کرے۔

مسئلہ (۲۴۷۷)اگررشتہ مانگنے والے کی دیانت داری اوراخلاق سے راضی ہوتو بہتر یہ ہے کہ اس رشتہ سے انکارنہ کرے۔پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ ’’جب بھی کوئی شخص تمہاری لڑکی کارشتہ مانگنے آئے اورتم اس شخص کے اخلاق اوردیانت داری سے راضی ہوتواپنی لڑکی کی شادی اس سے کردو۔اگر ایسانہ کروگے توگویازمین پرایک بہت بڑافتنہ وفساد پھیل جائے گا‘‘۔

مسئلہ (۲۴۷۸)اگربیوی شوہر کے ساتھ اس شرط پراپنے مہرکی مصالحت کرے (یعنی اسے مہربخش دے) کہ وہ دوسری شادی نہیں کرے گاتوواجب ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے اوربیوی کوبھی مہرلینے کاکوئی حق نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۷۹)جوشخص ولدالزناہواگروہ شادی کرلے اوراس کے یہاں بچہ پیداہو تو وہ حلال زادہ ہے۔

مسئلہ (۲۴۸۰)اگرکوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے روزوں میں یاعورت کے حائض ہونے کی حالت میں اس سے جماع کرے توگنہگار ہے۔لیکن اگراس جماع کے نتیجے میں ان کے ہاں کوئی بچہ پیداہوتووہ حلال زادہ ہے۔

مسئلہ (۲۴۸۱)جس عورت کویقین ہوکہ اس کاشوہرسفرمیں فوت ہوگیاہے اگروہ وفات کی عدت کے بعد شادی کرے( جس کی مدت احکام طلاق میں بیان کی جائے گی) اور بعداس کےاس کاپہلاشوہرسفرسے(زندہ سلامت)واپس آجائے توضروری ہے کہ دوسرے شوہرسے جداہوجائے اوروہ پہلے شوہرپرحلال ہوگی لیکن اگردوسرے شوہر نے اس سے جماع کیاہوتوعورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ وطی شبہ کی عدت گزارے جس کی مدت عدۃ طلاق کے برابر ہے اور عدہ کے دوران ضروری ہےکہ پہلا شوہر اس سےجماع نہ کرے لیکن بقیہ لذتیں حاصل کرنا جائز ہے اور اس کا نفقہ پہلے شوہر پر ہے اوردوسرے شوہر کوچاہئے کہ اس جیسی عورتوں کے مہر کے مطابق اسے مہراداکرے ۔

دودھ پلانے کے احکام

مسئلہ (۲۴۸۲)اگرکوئی عورت ایک بچے کوان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جومسئلہ مسئلہ (۲۴۹۲)میں بیان ہوں گے تووہ بچہ اگر لڑکا ہوتو مندرجہ ذیل عورتوں کےلئے اوراگر لڑکی ہوتو مندرجہ ذیل مردوں کےلئےمحرم بن جاتاہے:

۱:
) خودوہ عورت اوراسے ’’رضاعی ماں ‘‘ کہتے ہیں ۔

۲:
)عورت کاشوہرجوکہ دودھ کامالک ہےاور اسے’’ رضاعی باپ‘‘ کہتے ہیں ۔

۳:
)اس عورت کاباپ اورماں اورجہاں تک یہ سلسلہ اوپرچلا جائے اگرچہ وہ اس عورت کے رضاعی ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں ۔

۴:
)اس عورت کے وہ بچے جوپیداہوچکے ہوں یابعدمیں پیداہوں ۔

۵:
)اس عورت کی اولاد کی اولاد خواہ یہ سلسلہ جس قدر بھی نیچے چلا جائے اور اولادخواہ حقیقی ہوخواہ اس کی اولادنے ان بچوں کودودھ پلایاہو۔

۶:
)اس عورت کی بہنیں اوربھائی خواہ وہ رضاعی ہی کیوں نہ ہوں یعنی دودھ پینےکی وجہ سے اس عورت کے بہن اوربھائی بن گئے ہوں ۔

۷:
)اس عورت کاچچااورپھوپھی خواہ وہ رضاعی ہی کیوں نہ ہوں ۔

۸:
)اس عورت کاماموں اورخالہ خواہ وہ رضاعی ہی کیوں نہ ہوں ۔

۹:
)اس عورت کے اس شوہر کی اولاد جودودھ کامالک ہےاورجہاں تک بھی یہ سلسلہ نیچے چلاجائے اگرچہ اس کی اولادرضاعی ہی کیوں نہ ہو۔

۱۰:
)اس عورت کے اس شوہر کے ماں باپ جودودھ کامالک ہےاورجہاں تک بھی یہ سلسلہ اوپرچلاجائے۔

۱۱:
)اس عورت کے اس شوہر کے بہن بھائی جودودھ کامالک ہے خواہ اس کے رضاعی بہن بھائی ہی کیوں نہ ہوں ۔

۱۲:
)اس عورت کاجوشوہر دودھ کامالک ہے اس کے چچا اور پھوپھیاں اور ماموں اورخالائیں اورجہاں تک یہ سلسلہ اوپرچلاجائے اوراگرچہ وہ رضاعی ہی کیوں نہ ہوں ۔ اوران کے علاوہ کئی اورلوگ بھی دودھ پلانے کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں ( جن کاذکرآئندہ مسائل میں کیاجائے گا)۔

مسئلہ (۲۴۸۳)اگرکوئی عورت کسی بچے کوان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ ( ۲۴۹۲) میں کیا جائے گاتواس بچے کاباپ ان لڑکیوں سے شادی نہیں کرسکتا جنہیں وہ عورت جنم دے اور اگران میں سے کوئی ایک لڑکی ابھی اس کی بیوی ہو تواس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ البتہ اس کااس عورت کی رضاعی لڑکیوں سے نکاح کرناجائز ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی نکاح نہ کرے نیز( احتیاط واجب کی بناپر) وہ اس عورت کے اس شوہر کی بیٹیوں سے نکاح نہیں کرسکتاجو دودھ کامالک ہے اگرچہ وہ اس شوہر کی رضاعی بیٹیاں ہوں لہٰذااگراس وقت ان میں سے کوئی عورت اس کی بیوی ہو تو( احتیاط واجب کی بناپر)اس کانکاح ٹوٹ جاتاہے۔

مسئلہ (۲۴۸۴)اگرکوئی عورت کسی بچے کوان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ (۲۴۹۲) میں کیا جائے گاتو اس عورت کاوہ شوہر جو دودھ کامالک ہے اس بچے کی بہنوں کامحرم نہیں بن جاتا نیز شوہر کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بھائی بہنوں کے محرم نہیں بن جاتے۔

مسئلہ (۲۴۸۵)اگرکوئی عورت ایک بچے کودودھ پلائے تووہ اس کے بھائیوں کی محرم نہیں بن جاتی اور اس عورت کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بھائی بہنوں کے محرم نہیں بن جاتے۔

مسئلہ (۲۴۸۶)اگرکوئی شخص اس عورت سے جس نے کسی لڑکی کوپورادودھ پلایا ہو نکاح کرلے اوراس سے مجامعت کرلے توپھروہ اس لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتا۔

مسئلہ (۲۴۸۷)اگرکوئی شخص کسی لڑکی سے نکاح کرلے توپھروہ اس عورت سے نکاح نہیں کرسکتاجس نے اس لڑکی کوپورادودھ پلایاہو۔

مسئلہ (۲۴۸۸)کوئی شخص اس لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتاجسے اس شخص کی ماں یا دادی ونانی نے مکمل دودھ پلایاہو۔نیز اگرکسی شخص کے باپ کی بیوی نے (یعنی اس کی سوتیلی ماں نے) اس شخص کے باپ کامملوکہ دودھ کسی لڑکی کوپلایاہوتووہ شخص اس لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتااوراگرکوئی شخص کسی دودھ پیتی بچی سے نکاح کرے اوراس کے بعداس کی ماں یا دادی ونانی یااس کی سوتیلی ماں اس بچی کودودھ پلادے تونکاح ٹوٹ جاتاہے۔

مسئلہ (۲۴۸۹)جس لڑکی کوکسی کی بہن یابھائی نے بھائی کے دودھ سے پورادودھ پلایا ہووہ شخص اس لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتااورجب کسی شخص کی بھانجی،بھتیجی یابہن یا بھائی کی پوتی یانواسی نے اس بچی کودودھ پلایاہوتب بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۲۴۹۰)اگرکوئی عورت اپنی لڑکی کے بچے کو(یعنی اپنے نواسے یانواسی کو) پورادودھ پلائے تووہ لڑکی اپنے شوہرپرحرام ہوجائے گی اور اگرکوئی عورت اس بچے کو دودھ پلائے جواس کی لڑکی کے شوہر کی دوسری بیوی سے پیدا ہواہوتب بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگرکوئی عورت اپنے بیٹے کے بچے کو(یعنی اپنے پوتے یاپوتی کو) دودھ پلائے تواس کے بیٹے کی بیوی (یعنی دودھ پلائی کی بہو) جواس دودھ پیتے بچے کی ماں ہے اپنے شوہر پرحرام نہیں ہوگی۔

مسئلہ (۲۴۹۱)اگرکسی لڑکی کی سوتیلی ماں اس لڑکی کے شوہر کے بچے کواس لڑکی کے باپ کامملوکہ دودھ پلادے تواس احتیاط کی بناپرجس کاذکرمسئلہ (۲۴۸۳)میں کیاگیاہے،وہ لڑکی اپنے شوہرپرحرام ہوجاتی ہے خواہ وہ بچہ اس لڑکی کے بطن سے یاکسی دوسری عورت کے بطن سے پیدا ہو۔

دودھ پلانے سے محرم بننے کی شرائط

مسئلہ (۲۴۹۲)بچے کوجودودھ پلانامحرم بننے کاسبب بنتاہے اس کی آٹھ شرطیں ہیں :

۱:
) بچہ زندہ عورت کادودھ پئے۔پس اگروہ مردہ عورت کے پستان سے رضاعت کی مقدار کا کچھ حصہ دودھ پئےتو اس کاکوئی فائدہ نہیں ۔

۲:
)عورت کادودھ شرعی طور پر پیدائش سے پیدا ہواہو اگر چہ وطی شبہ ہی کی بنا پر کیوں نہ ہوپس اگر شرعی طورپر پیدائش کے بغیر دودھ پیدا ہوا ہویا اگر ایسے بچے کادودھ جوولدالزنا ہوکسی دوسرے بچے کودیاجائے تواس دودھ کے توسط سے وہ دوسرابچہ کسی کامحرم نہیں بنے گا۔

۳:
)بچہ پستان سے دودھ پئے۔ پس اگردودھ اس کے منہ میں انڈیلاجائے تواس کا کوئی اثرنہیں ہے۔

۴:
)دودھ خالص ہواورکسی دوسری چیز سے ملاہوانہ ہو۔

۵:
)وہ دودھ جو محرمیت کا سبب بنتا ہے وہ دودھ ایک ہی شوہرکاہو۔پس جس عورت کودودھ اترتاہواگر اسے طلاق ہوجائے اوروہ عقدثانی کرلے اوردوسرے شوہرسے حاملہ ہوجائے اوربچہ جننےتک اس کے پہلے شوہرکادودھ اس میں باقی ہومثلاً اگراس بچے کوخودبچہ جننےسے قبل، پہلے شوہرکادودھ آٹھ دفعہ اوروضع حمل کے بعد دوسرے شوہر کادودھ سات دفعہ پلائے تو وہ بچہ کسی کابھی محرم نہیں بنتا۔

۶:
)بچہ کسی وجہ سے دودھ کی قے نہ کردے اوراگرقے کردے توبچہ محرم نہیں بنتاہے۔

۷:
)بچے کواس قدردودھ پلایاجائے کہ اس کی ہڈیاں اس دودھ سے مضبوط ہوں اوربدن کاگوشت بھی اس سے بنے اوراگراس بات کاعلم نہ ہوکہ اس قدردودھ پیاہے یانہیں تواگراس نے ایک دن اورایک رات یاپندرہ دفعہ پیٹ بھرکر دودھ پیاتب بھی محرم ہونے کے لئے کافی ہے۔جیسا کہ آئندہ مسئلہ میں آئے گا،لیکن اگراس بات کاعلم ہوکہ اس کی ہڈیاں اس دودھ سے مضبوط نہیں ہوئیں اوراس کاگوشت بھی اس سے نہیں بناحالانکہ بچے نے ایک دن اورایک رات یا پندرہ دفعہ دودھ پیاہوتواس جیسی صورت میں ( احتیاط واجب) کاخیال کرناضروری ہے پس مذکورہ مقامات کے مطابق شادی نہ کرے اور نہ ہی اس پر محرم سمجھتے ہوئے نگاہ ڈالے۔

۸:
)بچے کی عمرکے دوسال مکمل نہ ہوئے ہوں اوراگراس کی عمردوسال ہونے کےبعد اسے دودھ پلایاجائے تووہ کسی کامحرم نہیں بنتا۔بلکہ اگرمثال کے طورپر وہ عمرکے دوسال مکمل ہونے سے پہلے آٹھ دفعہ اوراس کے بعدسات دفعہ دودھ پئے تب بھی وہ کسی کامحرم نہیں بنتا۔لیکن اگردودھ پلانے والی عورت کو بچہ جنےہوئے دوسال سے زیادہ مدت گزرچکی ہواوراس کادودھ ابھی باقی ہواوروہ کسی بچے کودودھ پلائے تووہ بچہ ان لوگوں کامحرم بن جاتاہے جن کاذکر اوپر کیاگیاہے۔

مسئلہ (۲۴۹۳)گزشتہ مسئلہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دودھ کی وہ مقدار جس کے پینے کے بعد محرم بن جاتا ہے اس کے تین معیار ہیں :

(۱) اتنی مقدار میں ہوکہ عرف میں کہا جاتا ہے کہ گوشت بننے اور ہڈی کے مضبوط ہونے کا سبب ہے اور اس کی شرط یہ ہےکہ اس چیز کو دودھ کی طرف نسبت دی جائے اور اس کے ساتھ کوئی غذا نہ ہو لیکن اتنی کم مقدارمیں غذا جو اثر انداز نہیں ہوتی نقصان دہ نہیں ہے اور اگر دو عورتوں سے اس طرح دودھ پئے کہ گوشت بننے اور ہڈی مضبوط ہونےکی کچھ مقدار اس کے دودھ سے اور کچھ مقدار دوسری عورت کے دودھ سے ہوتو دونوں رضاعی ماں ہوں گی اور اگر دونوں سے ایک ساتھ نسبت دی جائے تو اس سے محرمیت حاصل نہیں ہوگی۔

(۲)وقت کی مدت اس کی شرط یہ ہےکہ ایک مکمل دن اور رات کے درمیان میں غذا یا کسی دوسری عورت کا دودھ نہ پئے لیکن اگر پانی یا دوا یا غذا اس طرح کھائے کہ یہ نہ کہا جاسکے کہ درمیان میں غذاحاصل کی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اور ضروری ہےکہ ایک مکمل دن و رات میں مسلسل ضرورت کے وقت یا میلان کی بناء پردودھ پئے اور اسے دودھ پینے سے روکانہ گیاہو بلکہ( احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہےکہ ایک شب وروز کا پہلے حصہ کو اس وقت سے حساب کرے جب بچہ بھوکا ہو اور اس کا آخری حصہ اس وقت قرار دے جب شکم سیر ہو۔

(۳) عددکا حساب اس کی شرط یہ ہےکہ ایک ہی عورت سے پندرہ مرتبہ دودھ پئے اوراس درمیان میں کسی دوسری عورت کا دودھ نہ پئے لیکن اس کے درمیان غذا حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور پندرہ مرتبہ کے درمیان میں اگر کسی وقت کا فاصلہ ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور ضروری ہےکہ ہر دفعہ مکمل دودھ پئے یعنی بھوکا ہو، پیٹ بھرنے تک بغیر فاصلہ کے مکمل دودھ پئے لیکن اگر دودھ پینے کےدوران سانس لے لے یا تھوڑی دیرکےلئے ٹھہر جائے کہ منھ میں پستان لینے کی ابتدا سے شکم سیر ہونے تک کا زمانہ ایک دفعہ شمار کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۴۹۴)اگرکوئی عورت اپنے شوہرکادودھ کسی بچے کوپلائے۔اس کےبعد عقد ثانی کرلے اوردوسرے شوہرکادودھ کسی اوربچے کوپلائے تووہ دوبچے آپس میں محرم نہیں بنتے ۔

مسئلہ (۲۴۹۵)اگرکوئی عورت ایک شوہر کادودھ کئی بچوں کوپلائے تووہ سب بچے آپس میں نیز اس آدمی کے اوراس عورت کے جس نے انہیں دودھ پلایاہومحرم بن جاتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۹۶)اگرکسی شخص کی کئی بیویاں ہوں اورہرایک ان شرائط کے ساتھ جو بیان کی گئی ہیں ایک ایک بچے کودودھ پلادے تووہ سب بچے آپس میں اوراس آدمی اور ان تمام عورتوں کے محرم بن جاتے ہیں ۔

مسئلہ (۲۴۹۷)اگرکسی شخص کی دوبیویوں کودودھ اترتاہو اوران میں سے ایک کسی بچے کومثال کے طورپر آٹھ مرتبہ اوردوسری سات مرتبہ دودھ پلادے تووہ بچہ کسی کابھی محرم نہیں بنتا۔

مسئلہ (۲۴۹۸)اگرکوئی عورت ایک شوہر کاپورادودھ لڑکے اورایک لڑکی کوپلائے تو اس لڑکی کے بہن،بھائی اس لڑکے کے بہن،بھائیوں کے محرم نہیں بن جاتے۔

مسئلہ (۲۴۹۹)کوئی شخص اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر ان عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتاجودودھ پینے کی وجہ سے اس کی بیوی کی بھانجیاں یا بھتیجیاں بن گئی ہوں نیزاگر کوئی شخص کسی نابالغ لڑکے سے اغلام کرے تووہ اس لڑکے کی رضاعی بیٹی، بہن، ماں اور دادی سے یعنی ان عورتوں سے جودودھ پینے کی وجہ سے اس کی بیٹی اور بہن، ماں بن گئی ہوں نکاح نہیں کرسکتااور(احتیاط واجب کی بناپر)اس صورت میں جب کہ اغلام کرنے والابالغ نہ ہو یااغلام کرانے والابالغ ہوتب بھی یہی حکم ہے۔

مسئلہ (۲۵۰۰)جس عورت نے کسی شخص کے بھائی کودودھ پلایاہووہ اس شخص کی محرم نہیں بن جاتی۔

مسئلہ (۲۵۰۱)کوئی آدمی دوبہنوں سے (ایک ہی وقت میں ) نکاح نہیں کرسکتا اگرچہ وہ رضاعی بہنیں ہی ہوں یعنی دودھ پینے کی وجہ سے ایک دوسرے کی بہنیں بن گئی ہوں اوراگروہ دوعورتوں سے شادی کرے اوربعدمیں پتاچلے کہ وہ آپس میں بہنیں ہیں تو اس صورت میں جب کہ ان کی شادی ایک ہی وقت میں ہوئی ہو دونوں نکاح باطل ہیں اوراگرنکاح ایک ہی وقت میں نہ ہواہوتوپہلا نکاح صحیح اوردوسرا باطل ہے۔

مسئلہ (۲۵۰۲)اگرکوئی عورت اپنے شوہرکادودھ ان اشخاص کوپلائے جن کاذکر ذیل میں کیاگیاہے تواس عورت کاشوہراس پرحرام نہیں ہوتا:

۱:
) اپنے بھائی اوربہن کو۔

۲:
)اپنے چچا،پھوپھی،ماموں اورخالہ کو اور ان کی اولاد کو۔

۳:
)پوتوں ،پوتیوں ، نواسوں اور نواسی کو اگرچہ نواسوں کے سلسلے میں بیٹی پر اس کا شوہر حرام ہوجانے کا سبب ہوگا۔

۴:
)اپنے بھائی او ربہن کی اولاد کو۔

۵:
)دیوراورنندکو۔

۶:
)شوہر کے بھائی او ربہن کی اولاد کو۔

۷:
)اپنے شوہرکے چچا،پھوپھی، ماموں اورخالہ کو۔

۸:
)اپنے شوہرکی دوسری بیوی کے نواسے یا نواسی،پوتے اور پوتی کو۔

مسئلہ (۲۵۰۳)اگرکوئی عورت کسی شخص کی پھوپھی زادیاخالہ زادبہن کودودھ پلائے تووہ (عورت) اس شخص کی محرم نہیں بنتی۔

مسئلہ (۲۵۰۴)جس شخص کی دوبیویاں ہوں اگراس کی ایک بیوی دوسری بیوی کے چچا کے بیٹے کودودھ پلائے توجس عورت کے چچاکے بیٹے نے دودھ پیاہے وہ اپنے شوہر پرحرام نہیں ہوگی۔

دودھ پلانے کے آداب

مسئلہ (۲۵۰۵)بچے کودودھ پلانے کے لئے سب سے پہلا حق اس کی ماں کا ہے اور باپ کو حق نہیں ہےکہ بچے کو کسی دوسرے کے حوالے کرے مگر یہ کہ ماں دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ کرے اور باپ کو ایسی دایہ مل جائے جو مفت میں یا کم اجرت پر دودھ پلانے پر آمادہ ہو تو اس صورت میں باپ بچے کو اس دایہ کے حوالے کرسکتا ہے اور اس کے بعد اگر ماں قبول نہ کرے اور مال خود دودھ پلانا چاہے تو اجرت کے مطالبہ کا حق نہیں رکھتی ۔

مسئلہ (۲۵۰۶)مستحب ہےکہ بچہ کی دایہ مسلمان،عقل مند ،جسمانی ، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے پسندیدہ صفات کی مالک ہو اور مناسب نہیں ہےکہ ایسی دایہ کو اختیار کیا جائے جو کافر،کم عقل، بوڑھی یا بدصورت ہو اور مکروہ ہے ایسی دایہ اختیار کرے جو حرام زادی ہو یا اس کا دودھ ایسے بچہ سے حاصل ہوا ہو جو زنا کے ذریعہ دنیا میں آیا ہے۔

دودھ پلانے کے مختلف مسائل

مسئلہ (۲۵۰۷)عورتوں کے لئے بہترہے کہ وہ ہرایک کے بچے کودودھ نہ پلائیں کیونکہ ہوسکتاہے وہ یہ یادنہ رکھ سکیں کہ انہوں نے کس کس کودودھ پلایاہے اور(ممکن ہے کہ) بعدمیں دومحرم ایک دوسرے سے نکاح کرلیں ۔

مسئلہ (۲۵۰۸)مستحب ہے کہ بچے کوپورے( ۲۱)مہینے دودھ پلایاجائے اور دوسال سے زیادہ دودھ پلانامناسب نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۵۰۹)اگردودھ پلانے کی وجہ سے شوہرکاحق تلف ہوتاہوتوعورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کے بچے کودودھ نہیں پلاسکتی ہے۔

مسئلہ (۲۵۱۰)اگر کسی عورت کا شوہر ایک شیر خوار بچی سے نکاح کرے اور وہ عورت اس بچی کو دودھ پلادے تو (احتیاط واجب کی بنا ء پر)وہ اپنے شوہر پر ہمیشہ کےلئے حرام ہوجاتی ہے اور یہ احتیاطاً ضروری ہےکہ اس کو طلاق دے اور ہرگز اس سے شادی نہ کرے اور اگر وہ پلایا جانے والا دودھ خود اس سے متعلق تھا تو یہ شیر خوار بچی بھی ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوجائے گی اور پلایا جانے والا دودھ اس کے سابقہ شوہر سے ہوتو (احتیاط کی بناء پر) اس کا عقد باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ (۲۵۱۱)اگرکوئی شخص چاہے کہ اس کی بھابی اس کی محرم بن جائے توبعض فقہا نے فرمایاہے کہ اسے چاہئے کہ کسی شیرخواربچی سے مثال کے طورپردودن کے لئے متعہ کر لے اوران دودنوں میں ان شرائط کے ساتھ جن کاذکرمسئلہ ( ۲۴۹۲ )میں ہے اس کی بھابی اس بچی کودودھ پلائے تاکہ وہ اس کی بیوی کی ماں بن جائے۔لیکن یہ حکم اس صورت میں ہےجب بھابی،بھائی کے مملوک دودھ سے اس بچی کوپلائے محل اشکال ہے۔

مسئلہ (۲۵۱۲)اگرکوئی مردکسی عورت سے عقد کرنے سے پہلے کہے کہ رضاعت کی وجہ سے وہ عورت مجھ پرحرام ہے مثلاً کہے کہ میں نے اس عورت کی ماں کادودھ پیا ہے تواگراس بات کی تصدیق ممکن ہوتووہ اس عورت سے عقد نہیں کرسکتااوراگروہ یہ بات عقد کے بعدکہے اورخودعورت بھی اس بات کوقبول کرے توان کانکاح باطل ہے۔ لہٰذا اگرمرد نے اس عورت سے ہم بستری نہ کی ہویاکی ہولیکن ہم بستری کے وقت عورت کومعلوم ہو کہ وہ مردپرحرام ہے توعورت کاکوئی مہرنہیں اوراگرعورت کوہم بستری کے بعد پتاچلے کہ وہ اس مردپرحرام تھی توضروری ہے کہ شوہراس جیسی عورتوں کے مہر کے مطابق اسے مہردے۔

مسئلہ (۲۵۱۳)اگرکوئی عورت عقد سے پہلے کہہ دے کہ رضاعت کی وجہ سے میں اس مردپرحرام ہوں اوراس کی تصدیق ممکن ہوتووہ اس مردسے عقد نہیں کرسکتی اوراگر وہ یہ بات عقد کے بعد کہے تواس کاکہناایساہے جیسے کہ مردشادی کے بعدکہے کہ وہ عورت اس پرحرام ہے اوراس کے متعلق حکم سابقہ مسئلے میں بیان ہوچکاہے۔

مسئلہ (۲۵۱۴)دودھ پلاناجومحرم بننے کاسبب ہے دوچیزوں سے ثابت ہوتاہے:

۱:
) ایک شخص یا ایسی جماعت کاخبردیناجس کی بات پریقین یااطمینان ہوجائے۔

۲:
)دوعادل مرداس کی گواہی دیں لیکن ضروری ہے کہ وہ دودھ پلانے کی شرائط کے بارے میں بھی بتائیں مثلاً کہیں کہ ہم نے فلاں بچے کوچوبیس گھنٹے فلاں عورت کے پستان سے دودھ پیتے دیکھاہے اوراس نے اس دوران اورکوئی چیزبھی نہیں کھائی اور اسی طرح ان باقی شرائط کوبھی صاف صاف الفاظ میں بیان کریں جن کاذکر مسئلہ (۲۴۹۲) میں بیان کیا گیاہے۔ البتہ ایک مرداوردوعورتوں یا چارعورتوں کی گواہی سے جوسب کے سب عادل ہوں رضاعت کاثابت ہونامحل اشکال ہے پس احتیاط کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ (۲۵۱۵)اگراس بات میں شک ہوکہ بچے نے اتنی مقدار میں دودھ پیاہے جو محرم بننے کاسبب ہے یانہیں پیاہے یاگمان ہوکہ اس نے اتنی مقدار میں دودھ پیاہے تو بچہ کسی کابھی محرم نہیں ہوتالیکن بہتریہ ہے کہ احتیاط کی جائے۔
طلاق کے احکام ← → مُعَامَلات
العربية فارسی اردو English Azərbaycan Türkçe Français